سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کو حکم دیا کہ وہ طالبات کی جان اور عزت کے تحفظ کیلئے صوبے کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے گرلز ہاسٹلز میں لیڈی پولیس کمانڈوز تعینات کرے۔
ہائی کورٹ کا یہ حکم شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (SMBBMU) لاڑکانہ اور شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز (SBBUVAS) سکرند کے وائس چانسلرز (VCs) کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر آیا۔
جنہوں نے 45 دنوں کیلئے جبری چھٹی پر بھیجنے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا۔
نوٹیفکیشن میں سندھ حکومت نے وی سیز پر کرپشن اور اپنے اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کا نوٹس نہ لینے کے الزامات عائد کیے تھے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کی دو طالبات کی مبینہ خودکشی ہوئی۔
جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اپنے تحریری حکم نامے میں آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 34 کا حوالہ دیا اور مشاہدہ کیا کہ آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کے مکمل تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔
ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ہم حکومت سندھ کی مجاز اتھارٹی کو یہ ہدایت کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ وہ فوری طور پر سندھ کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تمام گرلز ہاسٹلز میں لیڈی پولیس کمانڈوز کو تعینات کریں۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ متعلقہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف رینجز اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سندھ، خواتین طالبات کو اس طرح کی کارروائیوں میں لوگوں کے ظلم و ستم سے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔
بینچ نے مزید کہا کہ یہ واضح کیا جائے کہ حکومت سندھ اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں/کالج کے گرلز ہاسٹلز میں کوئی مرد ممبر تعینات نہیں کیا جائے گا، اور عدم تعمیل کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔
متعلقہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سمیت تمام مجرم افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بینچ نے کہا کہ جہاں تک وی سیز کو جبری رخصت پر بھیجنے کا تعلق ہے، دونوں درخواست گزاروں کے خلاف لگائے گئے اولین طور پر الزامات کو ثابت کرنا باقی ہے اور درخواست گزاروں کو ایسے اہم عہدوں سے دور رکھنے کیلئے کوئی مواد ریکارڈ پر نہیں رکھا گیا ہے۔
لہٰذا، مناسبیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی متعلقہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے طور پر اپنا کام جاری رکھیں۔
اس سلسلے میں بینچ نے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ سندھ کے چیف اور ہوم سیکریٹریز کے ساتھ ساتھ پولیس انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور ڈی آئی جیز کو حکم نامے سے آگاہ کریں۔