پاکستان ڈیموکریٹک مووممنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے قومی اسمبلی سیکٹریٹ میں آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت اسمبلی کے اجلاس منعقد کروانے اور وزیراعظم عمران کیخلاف عدم اعتماد ووٹ کی قرارداد جمع کرائی گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب ہونے کیلئے قومی اسمبلی کی کُل 342 نشستوں میں سے کم از کم 172 نشستوں پر قابض ہونا لازمی ہے جبکہ اپوزیشن کے مطابق انہوں نے موجودہ حکومت کو شکست دینے کیلئے درکار نمبرز حاصل کرلئے ہیں اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے ان کا ہدف 180 نمبر ہیں۔
سابق وزیراعظم اور لیگی رہنماء شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ 162 نمبرز اپوزیشن اور ایک جماعتِ اسلامی جبکہ حکومتی جماعت کے 2 ارکان بھی ووٹ فراہم کریں گے جس سے 7 ووٹ کا فرق رہ گیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 54 کے تحت اجلاس طلب کرنا ہوگا، اس ریکوزیشن کو کم از کم اعوان کے ایک چوتھائی ارکان دستخط کرکے اسپیکر اسمبلی کو جمع کراتے ہیں اور پھر اسپیکر کے پاس اجلاس طلب کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ 14 دن ہوتے ہیں۔
وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے ارکانِ قومی اسمبلی کی 20 فیصد تعداد یعنی 68 ارکان کو قرارداد پر دستخط کرنا ہوں گے اور یہ ووٹ تقسیم کے لحاظ سے اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا جاتا ہے۔
عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہونے کی صورت میں اسپیکر قومی اسمبلی صدر مملکت کو نتائج جمع کراتے ہیں اور سیکرٹری گیزٹڈ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں جبکہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔
آئین کے مطابق اگر وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی کی اکثریت کی جانب سے منظور کی جاتی ہے تو وزیراعظم اپنی وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔
تاہم وزیراعظم کے ہٹتے ہی قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کو منتخب کرنے کیلئے فوری ووٹنگ کا اہتمام کرتی ہے۔
خیال رہے کہ ملکی تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کو عدم اعتماد ووٹ کے ذریعے عہدے سے نہیں ہٹایا گیا جبکہ اس سے قبل 2 وزرائے اعظم ایسی تحریکوں کا سامنا کرچکے ہیں۔