اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کراچی سےباپ کے ہاتھوں اغواء 2بچیوں کی بازیابی سے متعلق کیس میں سندھ پولیس اورجے آئی ٹی کی پیشرفت رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آج کے دور میں کسی کوڈھونڈنا کون سا مشکل کام ہے، صرف عقلمندی سے تفتیش کی ضرورت ہے،مغوی بچیاں بازیاب کرائیں ورنہ آئی جی سندھ کیخلاف کارروائی ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں کراچی سےباپ کے ہاتھوں اغواء 2بچیوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ نے سندھ پولیس اورجے آئی ٹی کی پیشرفت رپورٹ مسترد کرتےہوئے کہا کہ نئی رپورٹ پرانی رپورٹ میں الفاظ کا ہیرپھیرکرکے دوبارہ جمع کرائی گئی، پیشرفت رپورٹ میں تحقیقات سے متعلق کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایس ایس پی ساؤتھ کراچی کی سرزنش کرتےہوئے کہا کہ پولیس کی دلچسپی ہوتی تو5سال سے ماں دھکےنہ کھارہی ہوتی، آج کے دورمیں کسی کوتلاش کرنا کونسا مشکل کام ہے، 5سال گزرگئے ایک شخص قانون سےبھاگا ہوا ہے، کیاملزم آصف بلوچ کوموبائل اوربینک ٹرانزیکشنزکےذریعے ٹریس کیا؟ ۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ 5سال سے ملزم کی مالی امداد کون کررہا ہے؟ ۔
ایس ایس پی ساؤتھ نے بتایا کہ ملزم سےرابطے میں رہنے والوں سے پوچھ گچھ کی ہے، کراچی میں ایک جگہ چھاپہ مارا تو پولیس کیخلاف ہی کارروائی ہوگئی جبکہ جے آئی ٹی سربراہ کا تعلق آئی بی سے ہے۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ صرف عقلمندی سے تفتیش کی ضرورت ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ ممکن ہےملزم نے شناختی کارڈ تبدیل کروا لیا ہو، عدالت نادرا کو نوٹس کرے،جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کیا سندھ حکومت نادرا سے خود معلومات نہیں لے سکتی؟۔
عدالت نے آئی جی سندھ،جے آئی ٹی سربراہ اورممبران کوطلب کرتےہوئے کہا کہ تمام افسران آئندہ سماعت پر بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوں۔
پراسیکیوٹرجنرل سندھ نے عدالت سے2ہفتے کا وقت دینے کی استدعا کی جسے منظور کرلیا گیا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ آئندہ سماعت تک بچیاں ٹریس نہ ہوئیں توآئی جی سندھ کیخلاف کارروائی ہوگی، بعدازاں عدالت نے مزید سماعت 2ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر مہرین بلوچ نے سابق شوہر سے بچیوں کی بازیابی کیلئے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے ۔