پاکستان کی مشہور و نامور شخصیات نے گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت کی جانب سے نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
عدالت کے اس فیصلے پر مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، سپر اسٹار ماہرہ خان اور اداکار عثمان خالد بٹ سمیت سوشل میڈیا صارفین نے ٹوئٹر پر مختلف ٹویٹ کئے جس میں انہوں نے اس انصاف پر شکر ادا کیا۔
ن لیگ کی رہنماء مریم نواز نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اس قتل نے خاندان اور معاشرے کو جو زخم لگائے ہیں وہ شاید ہی بھر سکیں لیکن کم از کم یہ یقین دہانی ضرور ہوئی ہے کہ درندوں کو اپنے اعمال کے نتائج کا احساس ہو گا۔ "
اداکارہ ماہرہ خان نے ٹوئٹ کیا:"اس دنیا میں نور کے لیے انصاف ہوا ہے،الحمدللہ۔"
اداکار عثمان خالد بٹ اس فیصلے سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں، انہوں نے ٹوئٹ کیا: "ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔میں جانتا ہوں کہ ایک اپیل ہوگی،میں جانتا ہوں کہ اس کے والدین بری ہو گئے ہیں، میں جانتا ہوں کہ ہم حقیقی انصاف سے بہت دور ہیں۔"
مائیکروبلاگنگ سائٹ پر بھی بہت سے دوسرے صارفین نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے ٹوئٹ کیا: نور، ہم آپ کو واپس نہیں لا سکتے لیکن مجھے امید ہے کہ آپ کے والدین آج رات سو جائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ انہیں یہ جان کر تھوڑا سکون ملے گا کہ ان کی بیٹی کا قاتل آزادانہ طور پر گھوم نہیں رہا ہے،انصاف ہوا ہے۔"
کچھ صارفین کے مطابق ظاہر جعفر ایک ایسا فرد تھا جو اس کا حقدار تھا۔
ایک ٹوئٹر صارف نے اپنی کیفیات کو ٹوئٹر پر کچھ یوں قلم بند کیا:" عدالت نے نورمقدم کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے سزائے موت سن کر راحت مل جائے گی لیکن اس طرح کے خوفناک فعل کے بعد وہ لفظی طور پر اس کا مستحق تھا۔"
کچھ لوگوں نے نور مقدم کی تصویریں شیئر کیں اور فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ان کے لیے دعا کی۔
اگرچہ تمام پاکستانی ٹوئٹر صارفین اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھے،کچھ نے اصرار کیا کہ انصاف صرف اسی صورت میں ملے گا جب ظاہرجعفر کے والدین اور اس کیس میں ملوث دیگر افراد کو بھی سزا دی جائے۔
اور دیگر اگرچہ فیصلے سے خوش ہیں لیکن اس پر عمل کب ہوگا اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ٹوئٹ کیا: "انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے"۔
یادرہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل 4 ماہ 8 دن جاری رہا، گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے، شہادتیں رکارڈ ہوئیں، جرح کے بعد وکلاء نے حتمی دلائل دیئے اور پھر عدالت نے 22 فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔