الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (PECA) پیکا 2016 میں ترمیم کرنے والے نئے آرڈیننس کو اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام (ترمیمی) آرڈیننس 2022 جاری کیا، جس کے تحت موجودہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترامیم لائی گئی ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ آرڈیننس کا نفاذ "بد نیتی" پر مبنی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے مطلوبہ شرائط پوری نہیں کی گئیں۔
یہ آرڈیننس 17 فروری کو سینیٹ کے اجلاس کے اختتام کے دو دن بعد جاری کیا گیا تھا اور قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو ہونا تھا لیکن اسے گیارہویں گھنٹے پر ملتوی کر دیا گیا تھا۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ ایسا کرنے سے جواب دہندگان قانون سازی کے مناسب عمل سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر آرڈیننس جاری کیا ہے۔درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی جس میں اس نوعیت کا آرڈیننس جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ قومی اسمبلی کے اجلاس تک انتظار کیا جانا چاہیے تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ایک صحت مند جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنا جہاں ملک کے لوگوں کو اپنے دل کی بات کہنے، اپنی رائے کا اظہار کرنے، حقائق کو عوام کے سامنے پیش کرنے پر سزا دی جائے، جمہوریت کے خلاف ہے۔
دوسری جانب راناایوب خاور نے آرڈیننس کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
دونوں ہائی کورٹس سے الیکٹرونک کرائمز ترمیمی آرڈیننس 2022 کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔