باوجود اس کے کہ میں ایڈز پازیٹو تھا میں نے پھر بھی شادی کر لی ۔
کیا آپ نے اپنے سسرال والوں کو اس بارے میں اعتماد میں لیا۔۔میں نے بے ساختہ پوچھا
نہیں ۔
اور آپکی بیوی کو کب پتہ چلا کہ آپ اس مرض میں مبتلا ہیں۔
تین سال بعد ۔۔
تو اسکا کیا ری ایکشن تھا ۔۔
کچھ خاص نہیں اس نے کہا اللہ کی مرضی ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ۔
میں نے اپنی نظریں اس شخص کے چہرے پر جماتے ہوئے سوال کیا
ایک بات بتائیں ۔اگر آپ ٹھیک ہوتے اور آپکی بیوی اس مرض کا شکار ہوتی تو آپکا ری ایکشن کیا ہوتا ۔
عورت تو شادی کرتی ہی نہ ۔۔
عجیب سا اطمینان اس کے چہرے پر تھا ۔وہی اطمینان جو رجعت پسند معاشرے کے مردوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ جسمیں انھیں لگتا ہے کہ عورت تو مرد کے ہر عیب اور مسئلے پر صبر کرے لیکن خود عورت کبھی دھوکہ دہی کا حصہ نہ بنے ۔
میری یہ گفتگو ایک ایسے Migrant worker سے ہوئی جو مزدوری کے لئے بیرون ملک گیا اور وہاں ایڈز کا شکار ہو گیا ۔واپسی پر باوجود اسکے کے وہ ایچ آئی وی پازیٹو تھا ۔اس نے کسی کو بتائے بغیر شادی کر لی ۔
پدرسری معاشرے کی تصویر کا دوسرا رخ۔۔
یہ تصویر کا ایک رخ تھا ۔اب ا ٓپکو ایک دوسرا رخ دکھاتے ہیں جس نے دیر کی ما رخ (فرضی نام)کی ذندگی جہنم بنا دی ۔18 سالہ مارخ کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ایچ آئی وی پازیٹو تھا لیکن اس نے بات پوشیدہ رکھی ہوئی تھی ۔گھر والوں نے اسکا رشتہ ما رخ سے کیا اور ما رخ آنکھوں میں خواب سجائے پیا گھر سدھار گئی لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اسکی طبعیت گرنے لگی ۔ٹسٹ ہونے کے بعد جب ایڈز پازیٹو آیا گیا اوردوسری طرف اسکا شوہر بھی انتقال کر گیا تو سسرال والوں نے اسے گھر سے نکال دیا ۔ والدین کی وفات کے بعد بھائی ہی ما رخ کا سہارا بن سکتے تھے لیکن انھوں نے بھی اسے گھر میں رکھنے سے انکار کر دیا ۔اب ما رخ ایک خالہ کے گھر کونے میں پڑی لوگوں کی نفرت بھری سوالیہ نگاہوں کے بیچ اپنی ذندگی کے باقی ایام گزار رہی ہے ۔
ایک مرد اور عورت کی کہانی میں اتنا واضح فرق پدرسری معاشرے کی اس ظالمانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جہاں عورت قصور وار نہ ہوتے ہوئے بھی آزمائش کی سلیب پر لٹکا دی جاتی ہے لیکن مرد سب کچھ کر کے بھی صاف دامن گردانا جاتا ہے۔
اکثر مرد پازیٹو ہونے کے باوجود بیوی سے معاملات چھپاتے ہیں اوراسی لاعلمی میں ایچ آئی وی خاتون کو منتقل ہو جاتا ہے۔۔
ایڈز کا شکار 200 حاملہ خواتین کی معالج رشیدہ کے تجربات نے اس معاشرتی بے حسی کو اور بھی واضح کردیا۔
رشیدہ نے آج نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ ہمارے پاس آنے والے اکثر کیسز میں مرد پازیٹو ہونے کے باوجود گھر والوں اور خاص طور پر بیوی سے چھپاتے ہیں اور اسی لاعلمی میں ایچ آئی وی خاتون کو منتقل ہو جاتا ہے اور بے حسی کی انتہا اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب لڑکے کا خاندان راز افشاں ہونے پر سارا الزام خاتون پر ڈال کر اسے فارغ کر دیتا ہے ۔
رشیدہ نے اپنے ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دیر میں ایڈز کا شکار ایک Migrant worker واپس آیا تو گھر والوں نے اسکی شادی طے کر دی اس دواران اس نے سب کو اپنے مرض کے بارے میں لاعلم رکھا ۔شادی کے بعد اس کی بیوی کو ایچ آئی وی ٹراسمنٹ ہوا اور ٹسٹ میں بات سامنے آگئی تو سسرال والوں نے بجائے بیٹے کے بہو پر الزام لگا کر گھر سے نکال دیا اور بیٹے کی دوسری شادی کر دی چونکہ وہ شخص ایڈز سیل کارجسٹر مریض تھا اس لئے ہم نے اسے سرزنش کی اور اسے مجبور کیا کہ وہ دوسری بیوی کو اس سے بچانے کے لئے حفاظتی اقدام اٹھائے ۔اب وہ دوسری بیوی کو تو دوائیاں دے رہا ہے لیکن پہلی بیوی در بدر ہوگئی ۔
ایڈز کا شکارہونے والی خواتین کو دہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔۔
ایسی ہی دل ہلا دینے والے حقائق ہمیں ایڈز سیل میں کام کرنے والی سائیکالوجسٹ فریدہ نے بھی بتائے فریدہ کے مطابق ان کے پاس آنے والے کیسز میں ذیادہ تعداد پختونخوا کے اپر ایریا کے Migrant workers جبکہ لوئر ایریا جیسے پشاور یا مردان میں Drug addictکی ہوتی ہے ۔
جبکہ خواتین کے کیسز میں ذیادہ تعداد شوہروں سے متاثر ہونے والی خواتین کی ہوتی ہے لیکن خواتین میں کھبی کھبار بلڈ ٹرانسفویژ کا کیس بھی آجاتا ہے ۔فریدہ کے مطابق ایڈز کا شکارہونے والی خواتین کو دہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ مرد اپنا معاملہ چھپا کر بچ جاتا ہے لیکن عورت کا ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا ہے تاکہ جان چھڑائی جا سکے ۔انکے پاس آنے والی کئی خواتین اسی قسم کے ذہنی دباو کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ دونوں خاندان انھیں اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں ۔
اپنی ایک بیوہ مریضہ کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ دونوں میاں بیوی ایڈز کا شکار تھے انکا ایک بیٹا بھی ہوا جوپیدائشی اس مرض کا شکار تھا ۔شوہر کے مرنے کے بعد سسرال والوں نے اسے نکال دیا اور بہن بھائی بھی رکھنے کا تیار نہیں ۔وہ چھوٹے سے بیٹے کے ساتھ در بدری کی ذندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔
رجسٹرڈ کیسز کی اکثریت میں ایچ آئی وی شوہروں سے ہی بیویوں میں ٹرانسمٹ ہوا ہوتا ہے ۔
خیبرپختونخوا ایڈز کنٹرول پروگرام کے ہیڈ ڈاکٹر اصغر خان نے بتایا کہ صوبے میں ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز کی تعداد چار سالوں میں 365 سے بڑھ کر 6364 تک پہنچ گئی۔
جس میں پشاور 1206 کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے۔ان کے مطابق ہائی رسک ایریا میں پشاور ،بنوں ،دیر ،لکی مروت،وزیرستان اور خیبر شامل ہیں ۔ایچ آئی وی کی کلیدی آبادی کے چار اہم حصوں میں منشیات کے عادی افراد،مرد اور خواتین سسکس روکرز اور ٹرانس جنڈرز شامل ہیں ۔انکے ہاں آنے والوں میں 38 فیصد منشیات کے عادی افراد جبکہ 5فیصد مرد سکس ورک ہوتے ہیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپر علاقوں کے Migrant workers کی بھی بڑی تعداد ایچ آئی وی کا شکار ہو کر آتی ہے لیکن وہ اس بات کو چھپاتے ہیں جس سے کئی اور ذندگیاں بھی متاثر ہو جاتی ہیں ۔اگر خیبر پختونخوا کے ایڈز مرض میں مبتلا افراد کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں مردوں کی تعداد4574 جبکہ خواتین 1495، 259 بچے اور 36 ٹرانس جنیڈرز ملتے ہیں۔ڈاکٹر اصغر نے بھی اس المیے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس رجسٹرڈ کیسزکی اکثریت میں ایچ آئی وی شوہروں سے ہی بیویوں میں ٹرانسمٹ ہوا ہوتا ہے ۔
معاشرتی رویے۔۔۔۔۔
ایڈز کا شکار لالہ رخ کو یہ مرض شوہر سے منتقل ہوا جو دوسال قبل انتقال کر گیا ۔اب لالہ رخ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنی ذندگی بسر کر رہی ہے ۔لالہ رخ پشاور کے حیات آباد میڈیکل کیمپلیکس سے اپنا علاج کروا رہی ہے ۔
اس نے مجھے بتایا کہ جب شوہر وفات کے بعد پہلی بار وہ اکیلی ہسپتال آئی تو اسے یاد نہیں تھا کہ کس جگہ جانا ہے کیونکہ ایک بڑے ہسپتال میں داخل ہو کر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کس طرف جاوں۔لالاہ رخ نے بتایا کہ اس نے کاریڈور میں کھڑے ایک شخص سے ایڈز سیل کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ اسکے پیچھے آئے ۔کچھ دیر چلنے کے بعد ایک نسبتا سنسان کاریڈور میں اس شخص نے لالہ رخ کو روک دیا اور کہا کہ اسے موبائل نمبردے تاکہ وہ آئیندہ بھی رابطہ کر سکے کیونکہ اس کے لئے اسکے پاس کچھ کام بھی ہے ۔
لالہ رخ اسکے انداز سے گھبرا گئی اور جلدی سے وہاں سے رش والی جگہ کی طرف چل پڑی ۔لالہ رخ کے لئے اس طرح کے رویے ناقابل برداشت ہیں لیکن اسکا کہنا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اب اسی کے ساتھ جینا ہے ۔اس لئے وہ ذندگی کی آخری سانس تک مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔