بی جے پی کی رہنما پرگیہ سنگھ نے کہا ہے کہ حجاب ایک پردہ ہے، یہ ان لوگوں کے خلاف (استعمال) کیا جانا چاہئے جو آپ کو بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہندو انہیں بری نظروں سے نہیں دیکھتے جیسا کہ وہ عورتوں کی پوجا کرتے ہیں۔"
بھارتی میڈیا کے مطابق حجاب کے سلسلے میں جاری تنازعہ کے درمیان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی رہنما پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ جب لوگ اپنے گھروں میں غیر محفوظ محسوس کریں، جہاں 'ہندو سماج' موجود ہے، سر پر اسکارف پہننا چاہیے۔
بھوپال سے لوک سبھا کے رکن نے کہا کہ 'گروکول' (روایتی ہندو تعلیمی اداروں) کے شاگرد 'بھگوا' (زعفرانی) لباس پہنتے ہیں، لیکن جب ایسے طلباء دوسرے اسکولوں میں جاتے ہیں تو وہ اسکول یونیفارم پہنیں اور تعلیمی اداروں کے نظم و ضبط پر عمل کریں۔
ان خیالات اظہار پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے بھوپال کے برکھیڑا پٹھانی علاقے میں ایک مندر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے ان کے حوالے سے کہا کہ "لیکن اگر آپ ملک کے اسکولوں اور کالجوں کے علم اور نظم و ضبط کو مسخ کرتے ہیں اور حجاب پہننا شروع کر دیتے ہیں اور حجاب لگانا شروع کر دیتے ہیں تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔"
ہندو مسلمانوں کو بری نظروں سے نہیں دیکھتے، پرگیہ سنگھ
پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے مزید کہا کہ "حجاب ایک پردہ ہے اور پردہ ان لوگوں کے خلاف (استعمال) کیا جانا چاہئے جو آپ کو بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہندو انہیں بری نظروں سے نہیں دیکھتے جیسا کہ وہ عورتوں کی پوجا کرتے ہیں۔"
پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ 'سناتن دھرم' میں وہ جگہ جہاں خواتین کی عزت نہیں کی جاتی ہے وہ ایک شمشان گھاٹ کی طرح ہے۔
پرگیہ سنگھ نے مسلمانوں میں شادی کے رواج کا حوالہ دیتے ہوئے 'شلوک' (آیت) کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ "آپ کو اپنے گھروں میں حجاب پہننا چاہیے،"
کرناٹک حجاب تنازع کی وجہ کیا ہے؟
کرناٹک گزشتہ سال سے حجاب تنازعہ میں گھرا ہوا ہے۔ جہاں طالب علم اپنی مذہبی آزادی کے استعمال کے اپنے حق پر زور دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لوگوں کا ایک اور طبقہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ میں یکسانیت کی وکالت کر رہا ہے اور دوسرا لڑکیوں کے حجاب پہننے کی مخالفت کر رہا ہے۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب جنوبی ریاست میں طلباء کے ایک گروپ نے الزام لگایا کہ انہیں حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس رومز میں داخلے سے منع کیا گیا تھا۔
اس کے فوراً بعد یہ تنازعہ دوسرے کالجوں تک پھیل گیا اور معاملہ ایک بڑے مسئلے میں تبدیل ہو گیا۔
اس دوران کرناٹک ہائی کورٹ نے طلبہ کو تعلیمی اداروں میں مذہبی لباس پہننے سے روک دیا ہے جب تک یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔
تاہم عدالت پچھلے کچھ دنوں سے اس معاملے پر درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔