رپورٹ: آصف نوید
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کو دوبارہ طلب کرلیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر ریاست خود ہی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہو تو پھر کون اس کیخلاف جائے؟یہ معاملہ اب روکنا چاہیئے، کسی ایک کا تو اس سب کیلئے احتساب ہونا چاہیئے۔
اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی مدثر نارو اور دیگر کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 2010 میں سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر ایک کمیشن بنایا تھا اس کی رپورٹ کہاں ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت 800 کے قریب لوگ تاحال لاپتہ ہیں،کل 8 ہزار لوگ لاپتہ ہوئے تھے، جس میں 6 ہزار کیسسز حل ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر یہ کیسسز حل ہوئے؟ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کیلئےوفاقی حکومت کی کوئی پالیسی تھی؟2016 سے اسلام آباد سے اٹھائے گئے کیس تو واضح ہیں، کیا بنا اس کا؟ اس معاملے کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، ملوث لوگوں کا احتساب کیسے ممکن ہوگا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو واضح ہے کہ ریاست کسی کو نہیں اٹھا سکتی، ریاست نے ہی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اگر شبہ ہوکہ ریاست خود ملوث ہے تو 50 ڈائرکشن پر بھی کچھ نہیں ہونا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے اور لاپتہ کمیشن کے ٹی او آرز، اور جسٹس منصور عالم کمیشن کی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کردی۔