Aaj Logo

شائع 02 فروری 2022 03:03pm

وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانے کا بِل سینیٹ میں پہنچ گیا

اسلام آباد: وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کے بنانے کا بل آخرکار سینیٹ میں اس وقت پہنچ گیا جب پی ٹی آئی کی حکومت پہلے ہی اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔

قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق ایک بار شروع ہونے والے اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 72 ماہ لگیں گے۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے دور حکومت میں اس منصوبے کو مکمل ہوتے نہیں دیکھ سکیں گے۔

تاہم ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بل کو جلد از جلد سینیٹ سے منظور کرانے کی کوششیں کر رہی ہے تاکہ آئندہ موسم بہار کے سیشن میں داخلوں کی پیشکش کے لیے کسی بھی کرائے کی عمارت میں یونیورسٹی کو فعال بنایا جا سکے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال وزیراعظم آفس کی ہدایت پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے حکام نے جی فائیو میں سرسید میموریل سوسائٹی کی عمارت کا دورہ کیا تھا۔

ایچ ای سی اور سی ڈی اے نے بعد میں وزیر اعظم آفس کے ساتھ ایک رپورٹ شیئر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ عمارت یونیورسٹی شروع کرنے کے لیے موزوں ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کرائے کی عمارت کے انتخاب کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی بل 2022 سینیٹ میں پیش کیا۔

چیئرمین محمد صادق سنجرانی نے بل غور کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کو بھجوا دیا۔

گزشتہ سال اکتوبر میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اس بل کی منظوری دی تھی اور گزشتہ ماہ قومی اسمبلی نے اسے منی بجٹ اور کچھ دیگر بلوں کے ساتھ منظور کیا تھا۔

دستاوزات کے مطابق جو گزشتہ سالقومی اسمبلی کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا تھا، یونیورسٹی کے سات سینٹرز آف ایکسی لینس ہوں گے جب میں سے 3 وزیر اعظم ہاؤس میں اور 4 کوری میں بنائے جائیں گے جہاں سرکاری زمین دستیاب ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے 6 سال درکار ہیں اور حکومت اس کے لیے 23 ارب روپے پہلے ہی مختص کر چکی ہے۔

یونیورسٹی کے چارٹر کی منظوری میں 3 سال سے زائد کی تاخیر کے بارے میں پوچھے جانے پر وزارت تعلیم کے حکام نے میڈیا کو بتایا کہ اس سے قبل وزارت کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اسے دیکھ رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اس منصوبے کو وزارت تعلیم کو بھیجا گیا تھا۔

وزارت تعلیم کے ایک عہدے دار نے کہا کہ "منصوبہ سنبھالنے کے بعد ایک ماہ کے اندر ہم نے قومی اسمبلی سے بل کی منظوری دے دی اور آج یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا،"

انہوں نے مزید کہا کہ جلد سینیٹ سے بھی بل کی منظوری دی جائے گی۔

فی الحال 141 پبلک سیکٹر یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں سے 15 انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے لیے ہیں اور پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاں فنڈز کی کمی کی شکایت کرتی رہی ہیں۔

تاہم حکومت ایک اور یونیورسٹی شروع کرنے پر بضد ہے۔

حال ہی میں سینیٹ کے اسٹینڈنگ آن ایجوکیشن کے اجلاس کے دوران بعض یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے کہا کہ انہیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

ان میں سے ایک نے بتایا کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی لیبارٹری کے لیے کیمیکل خریدنے کے لیے بھی کوئی فنڈ نہیں ہے۔

Read Comments