گرین لائن بی آر ٹی جو کہ شہر کا پہلا ماس ٹرانزٹ سسٹم ہے جو اس ماہ کے شروع میں افتتاح کے بعد شہریوں کے دل مین بسیرا کر لیا ہے۔
ٹریبیون کی رپوٹ کے مطابق مسافروں کے بے تحاشہ رش کی وجہ سے بہت سے لوگ چمکدار، نئی بس سروس میں سوار ہونے کے لیے پرجوش ہیں جبکہ ٹکٹ لینے کی قطار کے ساتھ ہی ہفتے کے آخری دنوں میں لمبی قطاروں میں شہری انتطار کرتے ہیں۔
مسافروں کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت کو ٹاور کی طرف جانے والی شٹل بس سروس شروع کرنے اور اس کے کرائے کے نظام کو بہتر کرنے پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایک مسافر نے کہا کہ "یہ نہ صرف BRT سروس کو مزید کامیاب بنائے گا بلکہ مسافروں کے لیے سفر کرنے میں بھی آسانی پیدا کرے گا"۔
گرین بس میں کتنے مسافر سفر کرتے ہیں؟
گرین لائن کے سینئر منیجر عبدالعزیز کے مطابق ایک بس میں کل 240 مسافروں کی گنجائش ہے، جن میں سے 140 کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔
عوام میں سروس کی مقبولیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسافروں کی قطاریں صبح 8:00 بجے سے ہی بس میں سوار ہونے کے لیے لگنا شروع ہو جاتی ہیں، لیکن اس سروس میں دفتری اوقات کے دوران مسافروں کی سب سے زیادہ آمد دیکھنے میں آتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ "اب تک ہفتے کے دنوں میں مسافروں کی تعداد 30,000 سے 40,000 کے لگ بھگ رہی ہے، لیکن اختتام ہفتہ پر یہ تعداد 50,000 تک پہنچ جاتی ہے"۔
گرین بس میں جدید ترین انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم نصب ہے
گرین لائن کے سینئر منیجر عبدالعزیز نے کہا کہ بس سروس جدید ترین انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم (ITS) کے تحت چل رہی ہے۔
اگر کاغذی ٹکٹوں کا پیپر یکساں نہیں ہے تو کنڈیکٹرز یا ٹکٹ بک کرنے والوں کے ذریعے دھوکہ دہی کا امکان ہے۔
ہم ممکنہ طور پر کاغذی ٹکٹ کے ساتھ ہر مسافر کی نگرانی نہیں کر سکتے اور ایک ٹکٹ پر مسافر ضروری کرایہ ادا کیے بغیر آسانی سے اگلے سٹیشن پر جا سکتا ہے جس سے بس سروس کو مالی نقصان ہو گا۔
یہ کارڈ سسٹم پر نہیں ہوتا، پلاسٹک کارڈ داخلی اور خارجی دروازے پر نصب آئی ٹی ایس مشینوں سے منسلک ہوتا ہے۔
گزشتہ سال 25 دسمبر کو گرین لائن بی آر ٹی کا افتتاح ہوا
اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے گزشتہ سال 25 دسمبر کو کراچی میں گرین لائن بی آر ٹی کا فیز I مکمل کرکے اسے سرجانی ٹاؤن سے نمایش چورنگی تک آپریشنل کر دیی تھا۔
ابتدائی طور پر یہ بس صبح 8 بجے سے دوپہر 12 بجے تک چلائی جاتی تھی لیکن بعد میں آپریشن کو صبح 7 بجے سے رات 10 بجے تک بڑھا دیا گیا جس کے بعد سروس میں ٹریفک میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔