لاہور کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے الزام سے ایک خاتون کو بری کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جب یہ بات سامنے آئی کہ شکایت کنندہ نے خاتون کے ساتھ بدفعلی کی اور پھر اپنے جرم سے بچنے کے لیے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا۔
اس حوالے سے خاتون کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ محمد عرفان جو کہ جرم کے گواہ کے طور پر پیش ہوا اس نے "میرے مؤکل کے جسم کو زبردستی چھونے کی کوشش کی اور جب اس نے اسے روکا تو اس پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔"
سماء ٹی وی کے مطابق فریدہ نامی اس خاتون پر قرآن پاک کی آیات کے صفحات کو پھاڑ کر جلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
پریذائیڈنگ جوڈیشل مجسٹریٹ نے کیس میں ناکافی شواہد پائے اور یہ نوٹ کیا کہ نہ تو فرانزک امتحان ہوا اور نہ ہی پولیس کی مکمل تفتیش ہوئی۔
جس کے بعد عدالت نے فریدہ کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
عدالت نے کہا کہ اگر ملزمہ خاتون نے مقدس کتاب کو تقریباً دو سے تین منٹ تک جلا دیا [جیسا کہ شکایت کنندگان نے دعویٰ کیا ہے] اسے مکمل طور پر جلا دینا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اپنے فیصلے میں جج نے توہین رسالت کے الگ الگ کیس میں سپریم کورٹ کے ایک سابقہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 'یہ بہتر ہے کہ ایک بے گناہ کو سزا سنانے کے بجائے دس قصورواروں کو بری کر دیا جائے'۔