اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے انتظامی ناانصافی پر ایک سینئر ٹیکس ادا کرنے والے شہری سے معافی مانگ لی اور چیئرمین ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کیس میں ملوث فیصلہ سازوں کے تمام سلسلے کیخلاف تعزیری کارروائی کریں۔
82 سالہ عبدالحمید خان کے ساتھ کئے گئے سلوک پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدر نے کہا :"اس عمل پر ان کے سر شرم سے جھکنے چاہیئے"۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں فیصلہ سازوں کی پوری ٹیم کے ساتھ تعزیری کارروائی کی جانی چاہیئے۔
صدر نے ایف بی آر کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ عمر رسیدہ پنشنر کوپریشان اور تذلیل کرنے کے مقصد سے غیر قانونی سلوک کیا گیا ہے۔
مسئلہ آخرکار کیا تھا؟
بیورو نے غیر سنجیدہ بنیادوں پر خان کو 2,333 روپے کی معمولی رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اسے ایک سال سے زائد عرصے پر محیط غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں گھسیٹ لیا تھا۔
خان نے سال 2020 کے اپنے انکم ٹیکس ریٹرن پر اس رقم کی واپسی کا دعوی کیا تھا اور 19 اکتوبر 2020 کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ اور سیل فون کمپنی کے بلوں کے ایڈوانس ٹیکس ڈیڈکشن کے مطلوبہ دستاویزات جمع کرائے تھے۔
اے پی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق خان نے 19 اکتوبر 2020 کو ای-ایپلیکیشن جمع کرائی جس کے بعد 24 دسمبر 2020 کو چیئرمین ایف بی آر کو نمائندگی بھی دی۔
ایف بی آر یونٹ کے افسر نے 29 جنوری 2021 کو اس کے ریفنڈ کے دعوے کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ درخواست گزار تصدیق کے لیے درکار اصل سرٹیفکیٹ فراہم کرنے میں ناکام رہا تھا۔
کیس ایف ٹی او کے حوالے کیا گیا۔
اس کے بعد خان نے اپنی شکایت کا ازالہ کرنے کے لیے معاملہ وفاقی ٹیکس محتسب (FTO) کے پاس اٹھایا۔
ایف ٹی او نے معاملے کی تحقیقات کی اور ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ غیر قانونی حکم پر نظرثانی کرے اور شکایت کنندہ کو قانون کے مطابق سماعت کا موقع فراہم کرنے کے بعد نیا حکم جاری کرے۔
محتسب نے ایف بی آر کو مزید حکم دیا کہ وہ اس اہلکار کی شناخت اور ان کیخلاف کارروائی شروع کرے جس نے قانون اور طریقہ کار کی تذلیل کرتے ہوئے ناقص آرڈر پاس کیا اور عمر رسیدہ ٹیکس دہندگان کو غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں ملوث کیا۔
نتیجتاً ایف بی آر نے ایف ٹی او کے حکم کیخلاف صدر سے درخواست دائر کی۔
کیس کو صدر نے ختم کیا۔
صدر علوی نے ایف بی آر کی نمائندگی مسترد کرتے ہوئے ایف ٹی او کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
صدر نے کہا کہ اگر یونٹ آفیسر سرٹیفکیٹس کی کاپیوں سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ نہ صرف پی ٹی سی ایل اور سیل فون کمپنیوں سے تصدیق کروا سکتا تھا بلکہ آن لائن تصدیق بھی ممکن تھی۔
صدر نے بلوں کی خود تصدیق کی اور افسر کی ناکامی کو ذمہ دارقرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ افسر کا یہ فعل ایف بی آر کے قانون، طریقہ کار اور ہدایات کی تضحیک ہے۔
ایف بی آر کی نمائندگی کو مسترد کرتے ہوئے صدر نے کہا : "یہ بیوروکریٹک اتھارٹی کا انتہائی افسوسناک اور شرمناک فعل ہے"۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایف بی آر کے اہلکار نے محکمہ، ٹیکس محتسب اور صدر پاکستان کا وقت ضائع کیا۔ 2,333 روپے کی معمولی رقم پر یہ معاملہ ایک سال سے زیادہ عرصہ سےتاخیر کا شکار تھا۔