اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس آرڈر پرعملدرآمد نہ ہونے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ہرادارے نے ریئل اسٹیٹ کابزنس کھولا ہوا ہے، اس سے بڑا مفادات کا ٹکراؤ اور کیا ہو سکتا ہے؟اسلام آباد میں پہلے مفادات کا ٹکراؤ تو دور کریں، جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں، عدالت بار بار کہہ رہی ہےکہ اسلام آباد پولیس کی پراسیکیوشن برانچ بنا دیں لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔
اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پولیس آرڈر پرعملدرآمد نہ ہونے کیخلاف درخواست پرسماعت کی،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، آئی جی اسلام آباد ، سیکریٹری داخلہ ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نےریمارکس دیئےکہ ایف آئی اے اورانٹیلی جنس بیوروسمیت پولیس نے اپنی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنارکھی ہیں، اصل مجرم پکڑے نہیں جاتے کیونکہ حکومتی مشینری خود ملوث ہوتی ہے، پٹواری اورایس ایچ او کی مرضی کے بغیر قبضہ ہو ہی نہیں سکتا، 2015کا پولیس آرڈر ہے جس پرعمل نہیں کیا جا رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نےکہاکہ غریب آدمی کیلئے فیصلہ آتا ہے تو میڈیا بھی رپورٹ نہیں کرتا،بڑے آدمی کو کچھ ہو جائے تو پوری مشینری وہاں پہنچ جاتی ہے، عدالتی آرڈر کی کاپی سب کے پاس گئی مگر کسی نے نہیں پڑھی ہوگی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزیدکہا کہ زمین کے بغیر سوسائٹی بناتے ہیں اورقبضہ مافیا کوتحفظ دیتے ہیں، ڈپٹی کمشنر بھی بے بس ہیں،انہیں بھی سب پتہ ہے جوہورہا ہے، کتابی باتیں نہ بتائیں۔
اٹارنی جنرل نےبتایا کہ کابینہ نےمنظوری دی ہےاورنیا پولیس ایکٹ جلد نافذ ہو جائے گا،جب کسی طاقتورگروپ پرہاتھ ڈالتے ہیں توادارے ہلادیئے جاتےہیں، یہ بقا ءکی جنگ ہوتی ہے، وفاقی حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے۔