ساتویں یوحسن لیکچر سے عالمی شہرت یافتہ اسکالر آشیش نندے نے حبیب یونیورسٹی کے بعنوان" تیسری دنیا میں نقطہ نظر کا تصادم" کے موضوع پر آن لائن سیشن سے خطاب کیا۔
آن لائن سیشن میں ڈاکٹر نندی نے مابعد نوآبادیات کے حوالے سے فکری ناکامیوں کے بارے میں گفتگو کی اور خاص طور پر یہ کس طرح ایک نسلی منصوبے کے طور پر ظاہر ہوتا ہے جس پر ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کے خیالات کو مغربی دانشورانہ اصولوں نے اپنایا اور تشکیل دیا ہے، جو ان کی خودمختاری کو چھین لیتا ہے۔
ڈاکٹر نندی نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مابعد نوآبادیاتی اسکالرز نے جدید نوآبادیات کا سنجیدگی سے جائزہ نہیں لیا ہے اور"قومی ریاست" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ہمیں پیدا نہیں کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم پرستی ایک نظریہ ہے جو آپ کی ریاست سے خصوصی وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ قوم پرستی کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ریاست کے دشمنوں کو اپنے دشمنوں کی طرح اپنا لیں۔
ڈاکٹر نندی نے اپنے لیکچر کا اختتام سامعین کو ثقافت، زبان، نسل اور شناخت کی قیمت پر قومی ریاست کو قبول کرنے کی سماجی برائیوں سے خبردار کرتے ہوئے کیا۔
پوسٹ کالونیل مفکر کے آن لائن لیکچر کو پوری دنیا کے دانشوروں، ماہرین تعلیم، سوشلسٹوں اور صحافیوں نے دیکھا اور یہ ایک ٹویٹر ٹرینڈ بن گیا۔
حیبب یونیورسٹی کی جانب سے لیکچر کیلئے دنیا بھر کے اسکالرز کو مدعو کیا جاتا ہے اورماضی میں کئی نامور اسکالرز اسکے سیشنز سے خطاب کرچکے ہیں ۔
یونیورسٹی کے مختلف مواقعوں پر منعقدہ سیشن سے اب تک ماریا کلوے، صدر ہاروی مڈ کالج اور پروفیسر نوم چومسکی، امریکی ماہر لسانیات اور فلسفی بھی خطاب کرچکے ہیں۔
فارن پالیس میگزین کے مطابق آشیش نندے دنیا کے 100 اعلی عوامی دانشوروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے حبیب یونیورسٹی سے خطاب کیا ہے۔