Aaj Logo

شائع 27 دسمبر 2021 02:42pm

بےنظیر بھٹو کی شہادت: ٹوئیٹر پر"وہ لڑکی لال قلندر تھی" ٹاپ ٹرینڈ

ہمیں سال کا آخر کسی نہ کسی طرح اپنے ملک کے ماضی کو یاد دلاتا ہے جس میں سے ایک  شخصیت سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو ہیں، جن کی شہادت بحیثیت سیاسی رہنما ان کے چاہنے والوں کو سوگ میں ڈبو دیتی ہے۔

بینظیر بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی میں ہر مشکل سے نبرد آزما ہوکر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی رہیں، جس کی داد ان کے مخالفین بھی دیئے بنا نہیں رہتے ہیں۔ 

جب جلاوطنی ختم کرکے 18 اکتوبر سنہ 2007 میں بینظیر بھٹو پاکستان آئیں تھیں، تو ان کے آنے پر کراچی میں  کارساز پر ان کی ریلی میں دھماکہ کیا گیا جس میں ان کے کارکنان سمیت دیگر افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے  تھے۔

جبکہ اس دھماکے میں بی بی محفوظ رہیں تھیں لیکن پھر 27 دسمبر سنہ 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپس پر بینظیر بھٹو کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور پھر خودکش ہوا، جس میں وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں اور لاکھوں چاہنے والوں کو سوگ وار چھوڑ گئیں۔

ان کی اسی ہمت اور حوصلے کو بہادری کا استعارہ بنا کر ادب میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اس پر حسن مجتبی نے ایک نظم لکھی تھی، جو آج ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنی ہوئی ہے۔

وہ لڑکی لال قلندر تھی

قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں

صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے

وہ قوم کی بیٹی تھی

جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے

وہ عورت تھی یا جادو تھی

وہ مردہ ہوکر زندہ ہے

تم زندہ ہوکر مردہ ہو

وہ دکھی دیس کی کوئل تھی

وہ لڑکی لال قلندر تھی !

جب کہ معروف شاعر اور مقرر سید محسن نقوی کی ایک نظم بھی پیپلز پارٹی کا سیاسی نعرہ بن چکی ہے، جو انہوں نے اپنی قائد بے نظیر بھٹو کے لیے لکھی تھی، اس کے سطریں مندرجہ ذیل ہیں:

اے عظیم کبریا

سن غریب کی دعا

سازشوں میں گھر گئی

بنت ارض ایشیا

لشکر یزید میں

اک کنیز کربلا

فیصلے کی منتظر

اک یتیم بے خطا

ٹال سب مصیبتیں

ہے دعا ترے حضور

واسطہ حسین عہ کا

توڑ ظلم کا غرور

یا اللہ، یا رسولؐ

بےنظیر بےقصور

یہ نظمیں وہ ہیں، جو آج بھی بے نظیر بھٹو کے مداحوں میں مقبول ہیں۔

Read Comments