کراچی:جینڈر انٹرایکٹو الائنس (GIA) اور عورت مارچ کے عہدیداروں نے جمعرات کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں'ہماری خواجہ سرا بہنوں کی نسل کشی'کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس فلاحی ادارے کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق معاشرے کی بے حسی کی وجہ سے ایک ماہ میں چار خواجہ سراؤں کی موت واقع ہوئی جس میں دو کو قتل کیا گیا جبکہ دو کی موت صحت کی نا قص سہولیات کے باعث ہوئی۔
ریلیز میں ٹرانس جینڈر بجلی، 19 سالہ ٹوفے، شیرلی اور X کے ساتھ ہونے والی بر بریت کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواجہ سرا خواتین کو قتل اور جسمانی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا یا ریاست اس مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دیتی۔
جی آئی اے اور عورت مارچ نے اپنے مطالبات بیان کئے اورکہا:
"ہم ان قتل کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ریاست سے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سرکاری اور پرائیویٹ ہیلتھ کیئر سہولیات میں خواجہ سرا برادری کے ساتھ غیر آئینی امتیازی سلوک کا نوٹس لے۔
انہوں نے طبی برادری سے اپنے حلف کو برقرار رکھنے اور خواجہ سرا کے مریضوں کو بلا تفریق صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ خواجہ سرا بہنوں پر تشدد اور امتیازی سلوک کا نوٹس لیں۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکام ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ 2018 کے تحت تمام ذمہ داریوں پر عمل درآمد کریں بشمول تحفظ مراکز اور محفوظ گھروں کا قیام"۔
پریس ریلیز کے مطابق بجلی ایک مہربان ٹرانس جینڈر خاتون تھیں جن کو اپنے ہی گھر میں گلا دبا کر قتل کیا گیا۔
ایچ آئی وی پازیٹو ٹوفےکوڈاکٹر روتھ کے ایم فاؤ سول ہسپتال میں علاج سے انکار کر دیا گیا تھا ۔بر وقت علاج نہ میسر ہونے کے باعث وہ دم توڑ گئی۔
شیرلی کے ساتھ صحت کی دیکھ بھال کی جگہوں پر اس قدر جارحانہ طور پر امتیازی سلوک کیا گیا کہ جب اسے ضرورت پڑی تو وہ علاج کروانے سے گھبرا گئی اور ہیلتھ کیئر سسٹم کے ٹرانس فوبیا کی وجہ سے چل بسی۔
"X - کو لیاری میں پرتشدد طریقے سے قتل کیا گیا۔ان کے اہل خانہ کی جانب سے اس کا نام ظاہر کرنے کی مما نعت ہے۔
ان سب خواجہ سرا خواتین کو ان کی زندگی کے حق سے انتہائی ظالمانہ انداز میں محروم کر دیا گیا۔
خواجہ سرا برادری کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئےاس این جی اونے پریس ریلیز میں کہا کہ انہیں معاشرے میں ان کے مقام سے محروم کرنے کا عمل جنوبی ایشیا کی نوآبادیات سے شروع ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی نوآبادیات اور ان کے سماجی نظام کی آمد سے قبل خواجہ سراؤں کو بہت سے معزز پیشوں میں سماجی پہچان اور ملازمت حاصل تھی۔