اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیو لیکس کیخلاف درخواست کےقابل سماعت ہونے پردلائل طلب کرلئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو کی تحقیقات کیلئےکمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت کی،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان درخواست پر عدالت کی معاونت کیلئے پیش ہوئے۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں عدالت تحقیقات کیلئے کس کو ہدایت جاری کرے؟۔
جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی ،لگتاہے درخواست گزارکسی اور کا کیس لڑ رہے ہیں،کبھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی اور استعمال کر رہاہے، یہ عدلیہ کو ہراساں کرنے اور دباؤ ڈالنے کا سیزن ہے۔
درخواست گزار سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر صلاح الدین نے کہا کہ توجہ ہٹانے کیلئے کہا جاتا ہے کہ 70 سال کا احتساب کریں یا کسی کا نہ کریں، عدالتوں کو متنازع بنایا جا رہا ہے، عدلیہ تحقیقات کرا کر یہ سلسلہ روک سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ماضی کے تمام معاملات بھی پارلیمنٹ بھجوا دیں بحث کے لیے، ایک سزا کے خلاف اپیل چل رہی ہے جس کیلئے عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی،ساری چیزیں گھوم پھرکرایک اپیل تک جاتی ہیں صرف ایک کیس کیلئے یہ پراکسی وارلڑی جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ ججز کیخلاف آڈیو اور ویڈیو لیکس منظر عام پر آگئے، عوام کی نظروں میں عدلیہ کی خود مختاری ضروری ہے، پتہ لگنا چاہیئے کہ پیسوں سے بھرے سوٹ کیس کیوں اورکیسےگئے، جسٹس سجاد علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا، عدلیہ پریس کانفرنس یا سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کرسکتی ۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر ہم آڈیو تحقیقات کی درخواست قابل سماعت بھی قرار دیں تو کیا ہو گا؟ آج کل ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے، کوئی بھی آڈیو بنا کر کہہ دے اس پر تحقیقات کریں، معاملے پر کمیشن تو اس وقت بنے جب کوئی گراؤنڈ ہو۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ خود کچھ نہیں کرسکتی مگر آزاد میڈیا اوربارزکردارادا کرسکتا ہے،مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کےمانچسٹرمیں 2فلیٹس کہاں پرہیں ،آج کل تو آڈیو ویڈیو بنانا اور فیبری کیٹڈ کرنابہت ہی آسان ہوگیا۔
اٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ16ہزارخاندانوں کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا کبھی کوئی ویڈیونہیں آئی ،صرف اسی ایک کیس میں یہ سب کیوں؟ عدلیہ پرباربارحملے کیوں ہورہے ہیں؟۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آڈیوکے بارے میں آپ کوبھی نہیں معلوم کہ کس کی ہے، اصلی ہے یا نہیں،آڈیو جس کے بارے میں ہے وہ تواس عدالت میں ہے نہیں۔
عدالت نے درخواست گزارکے وکیل سے کہا کہ آئندہ سماعت پرعدالت کو مطمئن کرے کہ اس کیس کو آگے کیسے لے کرجائے۔
عدالت نے سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر بھی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل جاری رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے۔