کیرالہ میں ہندوستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریسترانز میں 'حلال نظام' اور حلال سائن بورڈز پر پابندی عائد کرے۔
اس مطالبے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حلال کھانے میں انسانی تھوک ہوتا ہے۔
ہندوستانی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ حلال گوشت کے خلاف مہم "معاشرے کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کرنے کی کوشش" ہے۔
سماجی سائنسدان اور مصنف ڈاکٹراین۔پی۔ حافظ محمد نے انڈیا ٹوڈے کو بتایا"اس مہم کے پیچھے شیطانی عزائم ہیں اور یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑے گی"۔
اس مہم نے نہ صرف سوشل میڈیا پر تشویش کو جنم دیا ہے بلکہ سرحدوں کو بھی پار کر دیا ہے۔
سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے ٹویٹ کیا: " بی جے پی/مودی ہندوتوا پر مبنی ایجنڈے کے ذریعےسے ہندوستانی عوام میں پیدا ہونے والا اسلامو فوبیا اور تعصب ہندوستان کے انتہائی سیکولر حصوں میں بھی جڑیں پکڑ رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ جب دل نفرت سے بھرے ہوتے ہیں تو 96.2 فیصد خواندگی کافی نہیں ہوتی۔
ٹویٹر صارف ثنا سلیم کواس بحث کا مقصد مشکل محسوس ہوا اور انہوں نے اسے "بے معنی" قرار دیا۔
ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا(ڈی۔وائے۔ایف۔آئی) نے بی جے پی کی حلال فوڈ مہم کے خلاف فوڈ اسٹریٹ کا اہتمام کیااور اس میں جدت پسندی کی علامت کا اظہار کرتے ہوئے چکن، گائے اور سور کا گوشت پیش کیاگیا۔کیرالہ کے ڈی وائی ایف آئی کے صدر ایس ستیش نے انڈین نیوز پلیٹ فارم، نیوز 18 کو بتایاکہ،"اس مہم کے ذریعے بہت ساری غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ کھانا ذاتی پسند ہے اور اب لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے مذہب کو اس میں لایا جا رہا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ڈی۔وائے۔ایف۔آئی نے اس مہم کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا ہے۔
ستیش نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف مسلمانوں کی دکانوں پر حلال سائن بورڈ آویزاں ہوتا ہے بلکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کی دکانوں پر بھی یہ بورڈ لگے ہوئے ہیں۔
کیرالہ ہوٹل اور ریستورانز ایسوسی ایشن نے وزیر اعلی کو ایک شکایت درج کرائی ہے جس میں اس مہم کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جو لوگ سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی کاروائی کی درخواست کی ہے۔