ڈیجیٹل حقوق کی جنگ لڑنے والے فلسطینی تنظیم کے مطابق فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اسرائیلی حکومت کے دباؤ میں آ کر اس پر تنقید کو سنسر کررہے ہیں۔
العربیہ کے مطابق فلسطینی تنظیم 'حملۃ' عرب سنٹر برائے سوشل میڈیا کے مطابق فلسطینی سماجی کارکنوں کی آن لائن پوسٹس کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک اور انسٹاگرام پر سنسر کیا جارہا ہے۔
تنظیم حملۃ نے 2021 میں اب تک 746 ایسے واقعات درج کئے ہیں جن میں فلسطینی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔
تنظیم کے بانی ندیم ناشف کے مطابق "ہم ویب سائٹس کے ان اقدام کو فلسطینی موقف کے خلاف جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ فلسطینیوں پر جارحیت اور مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فیس بک نے برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائیٹرز' کی جانب سے موقف لینے پر بتایا کہ فیس بک اپنی کمپنی کے قیام کردہ خودمختار بورڈ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرے گی۔ماہ ستمبر میں فیس بک نے ایک بورڈ قائم کیا تھا جس نے تعصبانہ رویوں کے حوالے سے تحقیقات کی تھی۔
اس سے قبل مئی میں اسرائیلی فوج اور غزہ کے مزاحمت کاروں کے درمیان جنگ کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز نے فیس بک پر زور دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والا مواد اپنی ویب سائٹ سے جلداز جلد ہٹا دیں۔
فیس بک کی اندرونی رپورٹس کے مطابق فلسطینی سماجی کارکن اور رائٹر محمد الکرد کی پوسٹس کو دبانےکی کوشش پر فیس بک کے عملے نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔