وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک لبیک سے مذاکرات کے لیے کابینہ کے دو سینئر اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مطابق کمیٹی میں راجہ بشارت، چوہدری ظہیر الدین شامل ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے مطابق ملک میں امن و آشتی کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ پولیس اہلکار شہید، سیکڑوں افراد زخمی
لاہور میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
ڈان نیوز کے مطابق ایک بیان میں لاہور کے ڈی آئی جی (آپریشنز) کے ترجمان مظہر حسین نے کہا کہ دو شہید پولیس اہلکاروں کی شناخت ایوب اور خالد کے نام سے ہوئی ہے، البتہ تیسرے اہلکار کی شناخت نہیں ہو سکی تاہم وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تین پولیس اہلکار شہید ہوئے۔
مظہر حسین نے بتایا کہ جھڑپوں میں کئی اہلکار زخمی بھی ہوئے جنہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ مظاہرین نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پیٹرول بم بھی پھینکے۔
انہوں نے کہا کہ مشتعل ہجوم نے لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال بھی کیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
دریں اثنا لاہور پولیس کے ترجمان عارف رانا نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ ٹی ایل پی کے حامیوں کی جانب سے ایک پولیس چوکی پر حملے کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی مقامات پر پولیس کی مظاہرین سے جھڑپیں ہوئیں، انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پرامن رہیں گے لیکن بعد میں انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مظاہرین کے تشدد اور گاڑیوں کی ٹکر سے شہید ہونے والے 3 پولیس اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لواحقین سے دلی ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے فرائض کی ادائیگی کے دوران شہادت کا بلند مرتبہ پایا اور ہم ان کی اس عظیم قربانی کو سلام پیش کرتے ہیں۔
عثمان بزدار نے کہا کہ پنجاب حکومت غمزدہ خاندانو ں کے دکھ میں برابر کی شریک ہے اور پولیس کے شہدا کے لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
دوسری جانب ٹی ایل پی کے ایک نامعلوم ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ کم از کم 500 کارکن شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ کئی کی موت ہو چکی ہے۔
٭ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کا پس منظر
گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔
تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔
تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔
حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔
قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔
بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔
تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔
بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔