گیارہ مئی 1998 کو جب بھارت نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آگیا۔ یہ دو طرفہ دباؤ اندرونی بھی تھا اور بیرونی بھی۔
عوام تھے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔
پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر تھیں۔ ایک طرف عوام تھے جن کے جذبات تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بین الاقوامی طاقتیں لالچ اور پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو جوابی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور دوسری طرف بھارتی حکمران اور سیاستدان صبح شام اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے پاکستان کو اکسا اور دھمکا رہے تھے۔
ان دنوں نجی ٹی وی چینلز نہیں تھے، لیکن سنسنی پھیلانے کا کام اخبارات بالخصوص دوپہر اور شام کے اخبارات نے سنبھال رکھا تھا۔ ہر چند گھنٹوں بعد دھماکے ہونے یا نہ ہونے کی شہ سرخیوں کے ساتھ نئے ضمیمے گلیوں اور بازاروں میں پھیل رہے تھے۔
پھر بالآخر پاکستان نے 28 مئی کو پانچ دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔
ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان کا ایٹمی سفر بھی ایک منزل پر پہنچ گیا، جو پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف ادوار سے گزرنے اور مشکلات آنے کے باوجود جاری و ساری رہا تھا۔
٭ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز
آزادی کے بعد پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا عندیہ نہیں دیا تھا اور سنہ 1953 میں وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے سرکاری طور پر "ایٹم بم نہ بنانے" کا پالیسی بیان جاری کیا۔ تاہم توانائی کی پیداوار کے لیے ایٹمی پروگرام کے آغاز میں دلچسپی ظاہر کی۔
پاکستان نے سنہ 1953 میں امریکا کے ساتھ صنعتی اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ری ایکٹر کی تعمیر کی یادداشت پر دستخط کیے۔
سنہ 1953 میں امریکا کی "ایٹم فارپیس" پالیسی کی حمایت اور بعد ازاں اس کے ساتھ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی یادداشت کے بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کے فروغ کے لیے سنہ 1953 میں اٹامک انرجی کمیشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا۔
پاکستان نے سنہ 1960 اور 63 کے دوران یورینیم کی تلاش کا پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت لاہور اور ڈھاکہ میں دو سینٹرز قائم کیے گیے۔ ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر ملنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کو نکالنا شروع کیا۔
سنہ 1965 میں پاکستانی اداروں کوعلم ہوا کہ بھارت ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ جس پر اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹو اور صدر ایوب خان نے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے پاکستانی انجینئر منیراحمد خان سے ملاقاتیں کی۔ تاہم وقتی طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان نے کینیڈا کی مدد سے سنہ 1972 میں پہلا سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر لگایا۔
سنہ 1973 میں مشرقی پاکستان کی علیحٰدگی کے بعد پاکستانی حکام نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ بھارت سے مقابلے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا، چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔
سنہ 1974 میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلاؤ تنازعے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کیا۔
سنہ 1979 میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن نہیں رہا۔
پاکستان نے سنہ 1980 میں دعوٰی کیا کہ وہ ملک کے اندر موجود یورینیم سے ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔
امریکا نے سنہ 1982 میں خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں کے بعد پاکستان سے معاشی اور فوجی امداد کی پابندیاں ہٹا لیں۔ تاہم ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بنا پرامریکا نے سنہ 1990 میں دوبارہ پاکستان پر معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں۔
بھارت نے سنہ 1996 میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998 میں ایٹمی میزائل غوری کا تجربہ کیا۔
بھارت نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔
اس کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے گئے۔ یہ ایک کڑا وقت تھا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت دباؤ تھا، لیکن جلد ہی حکومت نے دو ٹوک فیصلہ کر لیا اور دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔
28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دور آبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پر مشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔ تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔
پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد 28 مئی کو "یوم تکبیر" سے موسوم کیا گیا۔ اس دن سے 28 مئی کو یوم تکبیر کے طور پر منانے کے لیے ملک کے طول و عرض میں تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔