ہوٹلز، ریسٹورنٹس، چینجنگ رومز وغیرہ میں خفیہ کیمروں کا معاملہ آج کل معمول بن گیا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد دوسروں شہروں میں کاروبار یا تفریح کرنے جاتے ہیں اور وہاں رہائش کیلئے انہیں مختلف ہوٹلوں میں رہنا پڑتا ہے۔
لیکن اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما زبیر عمر کے ساتھ پیش آئے مبینہ واقعے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ آخر ان خفیہ کیمروں کا کس طرح سے کھوج لگایا جا سکتا ہے۔
اس معاملے سیکیورٹی امور سے جڑے ماہرین نے چند مشورے دیئے ہیں جن پر عمل کرکے اور تھوڑی سی ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتا چلایا جا سکتا ہے کہ یہ خفیہ کیمرے کہاں نصب ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے کیمروں میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ روشنی کو شعاعوں کو منعکس کرسکیں، اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ کمرے میں خفیہ طور پر چھپایا گیا کیمرہ بھی روشنی کو منعکس کرے گا۔ اس کو چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کمرے کی تمام لائٹس کو بند کرکے موبائل فون کی لائٹ کو چاروں طرف گھمایا جائے، اگر موبائل ٹارچ کسی جگہ روشنی کو منعکس کریں تو سمجھ جائیں کہ وہاں خفیہ طور پر کیمرے کو چھپایا گیا ہے۔
خفیہ کیمروں کی تلاش کے لیے مختلف قسم کی ایپس کو بھی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ ان ایپس میں سے سب سے مشہور Radarbot اور Detectify ہیں، ان کو اپنے موبائل پر ڈاؤن کریں اور فریکوینسی کی مدد سے سکین کریں تاکہ وہ کیمرے کی نشاندہی کر سکے۔
اگر کسی شخص کو ہوٹل میں کوئی مشکوک ڈیوائس نظر آئے تو اسے فوری طور ڈھانپ دیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس ڈیوائس کوئی خفیہ کیمرہ لگایا گیا ہو۔
اس کے علاوہ اردگرد کی چیزوں کا مشاہدہ کرنے کی عادت ڈالیں، اگر کمرے میں موجود چیزیں آپ کے ذہن میں شک پیدا کریں تو فوری طور پر چوکس ہو جائیں کہ ضرور کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہے۔
ہوٹل انتظامیہ سموک ڈٹیکٹر کو بھی خفیہ کیمرہ نصب کرنے کیلئے استعمال کر سکتی ہے، اس لیے ان پر بھی خصوصی نظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایئر فلٹر، ڈیسک پلانٹس، وال ساکٹس، شو بکس، الیکٹرونک آؤٹ لیٹس، ٹاور کا سامان اور دیوار کی سجاوٹ بھی ضرور چیک کریں۔
پیشہ ورانہ طریقے سے خفیہ کیمروں کا سراغ لگانے والا آلہ کیمرہ ڈٹیکٹر ڈیوائس کہلاتا ہے، اس کو خریدیں اور بے فکر ہو کر جہاں مرضی جائیں، کیونکہ یہ چھپے ہوئے کیمرے کا پتا لگانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔