بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ابھی اپنے امریکا کے دورے سے واپس لوٹے ہی تھے کہ بھارتی سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں امریکی جریدے "نیویارک ٹائمز" کا ایک آرٹیکل شیئر ہونا شروع ہوگیا۔
اس آرٹیکل کے مطابق امریکا کے معتبر ترین سمجھے جانے والے جریدے نے وزیراعظم مودی کو دنیا کے لیے "آخری" اور "بہترین" امید قرار دیا تھا۔
ابھی بھارتی حکمران جماعت کے لوگ اس آرٹیکل کی خوشی منا ہی رہے تھے کہ "نیویارک ٹائمز" نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔
بدھ کے روز "نیویارک ٹائمز" کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا اخبار کا یہ صفحہ دراصل جعلی ہے۔
'یہ ایک مکمل طور پر من گھڑت تصویر ہے، اور یہ گردش کرنے والی ان بہت ساری تصاویر میں سے ایک ہے جن میں وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔'
سوشل میڈیا پر صارفین اس جھوٹی خبر کو وائرل کرنے کا ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کو قرار دے رہے ہیں۔
بھارتی مصنف سنجکتا باسو نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’بے جے پی کے آئی ٹی سیل کی جانب سے جھوٹی خبر پھیلانے میں کچھ نیا نہیں ہے لیکن اس بار یہ اتنا آگے چلے گئے کہ نیویارک ٹائمز کو عوامی طور پر اس کی تردید کرنا پڑی۔'
'اب یہ ایک بین القوامی خبر بن چکی ہے۔'
امریکی اخبار کے جعلی صفحے پر انگریزی میں جو ستمبر کی سپیلنگ لکھی گئی تھی وہ بھی غلط تھی۔
رگھو چوپڑا نامی ایک صارف نے اپنی ایک ٹوئٹ میں طنزاً لکھا کہ 'نیویارک ٹائمز کے نریندر مودی کو دنیا کی آخری امید نہ کہنے پر جھٹکا لگا اور ہاں انہیں ستمبر کی سپیلنگ بھی آتی ہے۔'
انڈین پارلیمنٹ کے رکن ڈاکٹر سانتانو سین کو بھی اس فیک نیوز کے پیچھے وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت نظر آئی۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’وزیراعظم کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر انڈیا کا امیج خراب کریں؟'
انڈین صحافی رانا ایوب نے بھی وزیراعظم مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ 'کچھ اور نہ صحیح، کم سے کم ہمارے سیاست دانوں کی فوٹو شاپ صلاحیتیں ہی بین القوامی ہیڈلائنز بن رہی ہیں۔'