وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں افغانستان میں جنگ کے حالیہ نتیجے اور امریکا کے نقصانات کےلئے پاکستان کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔
انہوں نے پیر کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ افغانستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور ہمیں ماضی کےلئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے جنگ زدہ ملک میں مستقبل میں ایک اور پرتشدد تنازعے سے بچنے کےلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نےامریکی ایوان نمائندگان میں حال ہی میں افغانستان پرہونے والی سماعت پر حیرت کا اظہار کیا جس میں گزشتہ دو دہائیوں سےزائد عرصےتک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ امریکا کے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
عمران خان نے یاددلایا کہ وہ 2001 سے بار بار خبردار کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ افغانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہےکہ وہ زیادہ طویل عرصے تک غیرملکی فوج کی اپنے ملک میں موجودگی قبول نہیں کرتے اور کوئی بھی دوسرا ملک حتیٰ کہ پاکستان بھی اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکا نے افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا، پاکستان میں پچاس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین آ گئے اور افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
عمران خان نے کہا اس میں مزید خرابی ہمارے ملک میں ساڑھے چار سو سے زائد امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے پیدا ہوئی اور پاکستان دنیا کا واحد ملک بن گیا جس پر ایک اتحادی نے حملے کئے۔ ان حملوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں عام شہری جاں بحق ہوئے اور امریکا مخالف جذبات مزید بھڑک گئے۔
انہوں نے کہا عسکریت پسند گروپوں نے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کی حمایت پر پاکستانی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔
انہوں نے کہاپاکستان نے 80 ہزار جانوں کی قربانی دی اور اس کی معیشت کو 150 ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان پہنچا اور 35 لاکھ شہریوں کو ان کے گھروں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔
انہوں نے کہا پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی کوششوں سے راہ فرار اختیار کرنے والے جنگجو افغانستان میں داخل ہو گئے وہاں بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں نے ان سے تعاون کیا اور مالی مدد فراہم کی۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے 2016 میں دہشتگردوں کو مکمل طور پر شکست دی جبکہ افغانستان کی صورتحال بدستور خراب ہوتی رہی۔افغانستان میں طویل عرصے سے مسلط جنگ کےلئے قانونی جواز نہ ہونے کی وجہ سے ایک بدعنوان اور نااہل افغان حکومت اقتدار میں آئی جس نے کٹھ پتلی حکومت کے طور پر کام کیا اور اسے دیہی افغان باشندوں کا اعتماد حاصل نہیں تھا۔
انہوں نے کہا یہ امر قابل افسوس ہے کہ افغان اور مغربی حکومتوں نے حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے اور سرحد پار نقل و حرکت کی اجازت دینے کا الزام لگا کر اسے آسانی سے قربانی کا بکرا بنایا۔
انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ افغان فوج اور غنی حکومت کے خاتمے کی مایوسی سے بچنے کےلئے طالبان کے ساتھ بات چیت کےلئےبہت پہلے ہی ایک حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہااس وقت دنیا کےلئے بہتر یہ ہے کہ امن واستحکام یقینی بنانے کےلئے نئی افغان حکومت کےساتھ روابط قائم کیے جائیں۔بین الاقوامی برادری کی خواہش تھی کہ تمام اہم قومیتوں کے گروہوں کو افغان حکومت میں شامل کیاجائے،تمام افغانوں کے حقوق کا احترام کیاجائے اور اس عہد کی پاسداری کی جائے کہ افغان سرزمین کبھی بھی کسی ملک کے خلاف دہشتگردی کےلئے استعمال نہیں ہوگی۔اگر ہم ٹھیک طرح اس پر عمل کریں تو دوحہ امن عمل کے مقصد کو حاصل کیاجاسکتا ہے جو ایک ایسے افغانستان کا حصول ہے جو دنیا کےلئے مزید خطرہ نہ ہو جہاں افغان شہری چار دہائیوں سے جاری تنازعے کے بعد امن کا خواب دیکھ سکیں.
انہوں نے کہاافغانستان کو اس کے حال پرچھوڑدینے سے بحران جنم لے گا۔اس کا نتیجہ افراتفری، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور عالمی دہشت گردی کے نئے خطرے کی صورتحال میں نکلے گا اوراس صورتحال سے بچنا ہمارا مقصد ہوناچاہیئے۔