اسلام آباد:سپریم کورٹ نے صدارتی نظام حکومت کے نفاذ سے متعلق درخواستیں ناقابل سماعت قراردے دی جبکہ عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھا۔
جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے صدارتی نظام سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسارکیا کہ دیکھنا ہے کہ کیا درخواست گزار متعلقہ بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ درخواستیں بنیادی انسانی حقوق پر کوئی ٹھوس بات کرتی بھی ہیں کہ نہیں ؟ ملک میں طاقتور سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں درخواست گزارکیوں آئے۔
درخواست گزاراحمد رضا قصوری نے کہا کہ سیاستدان اگر ملکی مفاد کا نہیں سوچتے تو کیا میں خاموش ہو جاؤں،آئین پاکستان بنانے میں واحد زندہ شخص ہوں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ آئیں کے آرٹیکل 46 کے تحت وزیراعظم ریفرنڈم کیلئے معاملہ مشترکہ پارلیمانی اجلاس کے سامنے رکھتے ہیں ،کیا معاملہ ابھی تک وزیراعظم یا پارلیمان کے سامنے آیا بھی ہے کہ نہیں؟ کیا صدارتی نظام رائج کرنے کیلئے صرف فردواحد کی خواہش ہے؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہاکہ میں فرد واحد نہیں بلکہ ایک ادارہ ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ قصوری صاحب جب آئین بن رہا تھا اورآپ رکن پارلیمنٹ تھے ،اس وقت آپ نے پارلیمانی نظام حکومت کی مخالفت کیوں نہیں کی؟ خود کو کیسے آئین بنانے والوں میں شمار کر رہے ہیں،جس پر رضا قصوری نے کہا کہ میں نے اس وقت بھی آئینی دستاویز کی مخالفت کی تھی ۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ قصوری صاحب آپ خود کو کیسے آئین بنانے والوں میں شمارکررہے ہیں ۔
جسٹس منصور علی نے کہا کہ آپ کی درخواست میں سیاسی سوال ہے جوعدالت سے متعلقہ نہیں، جس پر احمد قصوری نے کہا کہ میں نےملک کو1976 میں دولخت ہوتے دیکھا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قصوری صاحب عدالت کو غیر متعلقہ معاملات میں مت الجھائیں ،درخواست میں سیاسی سوال ہے جوعدالت سے متعلقہ نہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواستیں ناقابل سماعت قراردے دیں۔