پاکستان کی وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین میں ترمیم سے متعلق تیسرا آرڈینینس جاری کیا ہے جس کے تحت کسٹم ایکٹ 1969، جنرل سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کی مختلف شقوں میں ترمیم کی گئی ہے۔
ایف بی آر کے مطابق اس آرڈینینس کا بنیادی مقصد ٹیکس نیٹ میں وسعت لانا اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو غیر روایتی طریقوں سے پکڑنا ہے۔
اس آرڈینینس کے ذریعے صرف نان فائلر ہی نہیں بلکہ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے عام شہری، پروفیشنلز اور ریٹیلرز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے سکے گی۔
معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے حکومت نے سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ایف بی آر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کو یہ احکامات دے سکے کہ وہ کسی بھی فرد جو ریٹیلر ہے اور سیلز ٹیکس کے لیے اور ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے، اس کے کنکشن منقطع کر دیں۔
رجسٹریشن کرا لینے کی صورت میں ایف بی آر تحریری طور پر کنکشن بحالی کے احکامات جاری کرے گا۔
جو شخص بھی سیلز ٹیکس نادہندہ ہوگا اسے پہلی بار پانچ لاکھ، دوسری بار دس لاکھ، تیسری بار 20 لاکھ اور چوتھی بار 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ ہر بار کے درمیان 15 دن کا وقت ہوگا۔
اس کے باوجود سیلز ٹیکس اور کمپیوٹرائزڈ نظام کے ساتھ رجسڑ نہ ہونے کی صورت میں ریٹیلر کے کاروبار کو سیل کر دیا جائے گا۔
دوسری بار تک رجسٹرڈ ہو جانے کی صورت میں کمشنر پہلی بار کا جرمانہ معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
اسی طرح آن لائن اشیا فروخت کرنے والوں کو مارکیٹ پلیس قرار دے کر ودہولڈنگ ٹیکس جمع کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے۔
آن لائن اشیا فروخت کرنے والوں کو اپنا سسٹم ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ کرانا ہوگا اور جب بھی کوئی چیز فروخت کریں گے تو اس کی رسید مشین سے پرنٹ کرنا ہوگی تاکہ حقیقی فروخت کا ریکارڈ مرتب ہو سکے۔
تاجر برادری نے اس ترمیم اور آرڈنینیس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی موجودگی میں غیر آئینی آرڈینینیس جاری کرنا بند کرے۔
انکم ٹیکس آرڈینیس 2001 میں متعدد ترامیم کے ذریعے ایف بی آر نے یہ اختیار بھی حاصل کرلیا ہے کہ اب ایف بی آر ہر اس شخص جس کی آمدن ٹیکس کی شرح سے زائد ہے، لیکن اس کا نام ایکٹو ٹیکس لسٹ میں شامل نہیں اس کی موبائل فون سم، بجلی اور گیس کا کنکشن کاٹنے کا حکم دے سکے گا۔
تاہم ایسا کرنے سے قبل متعلقہ فرد کو نوٹس جاری کرنا ہوگا اور اس کے باوجود بھی وہ ریٹرن فائل نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اسی طرح اس ترمیمی آرڈینینس میں ایف بی آر نے نادرا کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت نادرا خود یا ایف بی آر کی درخواست پر کسی بھی فرد کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔
یہ معلومات نادرا اپنے آرٹیفیشل انٹیلی جینس نظام کے ذریعے اکٹھی کرے گا جس میں متعلہ فرد کی خریداری کی رسیدیں، اثاثے جات، آمدن، اخراجات اور دیگر معلومات موجود ہوں گی۔
ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈینینس میں ایک ذیلی شق کا اضافہ کرتے ہوئے ایسے تمام پروفیشنلز جن میں ڈاکٹر، وکیل، اکاؤنٹنٹ، ڈینٹسٹ، انجینیئر، نقشہ نویس، آئی ٹی پروفیشنلز، ٹیوٹر، ٹرینر یا کوئی بھی خدمات فراہم کرنے والے افراد جو رہائشی علاقوں میں کام کرتے ہیں اور بجلی کا گھریلو کنکشن استعمال کرتے ہیں ان پر اضافی ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایسے پروفیشنل جن کا بجلی کا بل ماہانہ 10 ہزار روپے تک ہوگا اس پر 5 فیصد، 10 ہزار سے 20 ہزار روپے تک کے بل میں 10 فیصد ، 20 ہزار سے 30 ہزار روپے تک کے بل میں 15 فیصد ، 30 ہزار سے 40 ہزارروپے تک کے بل میں 20 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس شامل ہوگا۔ ماہانہ 40 ہزار سے 50 ہزار روپے تک کے بل میں 25 فیصد ، 50 ہزار سے 75 ہزار روپے تک کے بل میں 30 فیصد اور ماہانہ 75 ہزار روپے سے زائد کے بجلی بل میں 35 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔