افغانستان کی حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے امریکی صدر بائیڈن کی عمران خان سے ناراضگی کی اصل وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان سے صرف اس لیے ناخوش ہے کیونکہ پاکستان نے اب کی بار امریکہ کو افغان جنگ کو طول دینے کیلئے اڈے فراہم نہیں کیے۔
گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ غیر ملکی میڈیا پاکستان کا عالمی امیج خراب کر رہا ہے، پنجشیر کے حوالے سے پاکستان پر الزام لگایا گیا، وہاں کے لوگ کہتے ہیں ہم نے سرے سے کوئی جہاز دیکھا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان نے افغانستان میں امریکا کے پورے مشن کی حمایت کی ہے اور وزیراعظم پاکستان عمران خان آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ فیصلے سے پاکستان کو نقصان برداشت کرنا پڑا، لیکن اب پہلے جیسے حالات نہیں، غیر ملکی میڈیا پاکستان کا عالمی امیج خراب کر رہا ہے۔
'حقیقت یہ ہے واشنگٹن اسلام آبادسے خوش نہیں ہے کیونکہ اسے پاکستان میں اڈے نہیں ملے تاکہ وہ افغانستان میں اپنی جنگ کو طول دے سکے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے افغانستان سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا رہا ہے، سی آئی اے کا چیف افغانستان آتا ہے تو شورنہیں مچایا جاتا، پاکستانی وفد آتا ہے توپوری دنیا میں شورمچایا جاتا ہے۔ یہاں سے مغرب کے دہرے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مہاجرین کو اپنی زمین دی، افغانستان کی حکومت میں ایسے افراد رہے جنہوں نے پاکستان پرالزام لگائے، یہ لوگ سوویت یونین سے بھی ملے ہوئے تھے، 40 برسوں سے میڈیا بھی انہی لوگوں کے کنٹرول میں رہا۔ افغانستان میں دوسرے ممالک کے سفارتخانوں کو کھولنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔
گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ امریکا کا رویہ امتیازی ہے، امریکا افغانوں پر طرح طرح کی شرائط لگانا شروع کردیتا ہے، ماضی کی 3 سپر پاور نے افغانستان پر حملہ کیا، غیرملکی طاقتوں نے وہ حکومتیں مسلط کی جو ہماری نہیں تھی۔ ہمارے 3 سابق وزرائے خزانہ، سابق صدر پیسے چرا کر بھاگ گئے، پیسے چوری کرنے والوں کو پکڑنا اور ان سے سوال ہونے چاہئیں، ان کو سزا دی جانی چاہئیں، ان کو معاف نہیں کرنا چاہیے ان کومعافی دینے پر ہمیں تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مخلوط حکومت کی شرط صرف افغانستان پر ہی عائد کیوں ہوتی ہے، پاکستان کی طرف دیکھنا چاہیے کیا سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف پاکستان کی حکومت میں نظر آتے ہیں۔
خطے میں چین، روس، ایران سمیت دیگر ممالک کو دیکھ لیں جہاں پر ایک پارٹی کی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان میں امریکا کے آلہ کاروں نے افغانستان کے خلاف کام کیا جواب بھی جنگ چاہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں اب ایسے لوگوں سے مفاہمت نہیں کرنی چاہیے۔
افغانستان کے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کی خواتین اپنے حقوق کو جانتی ہیں، خواتین کے حقوق سے انکار نہیں کیا جاسکتا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمیں جو افغانستان ملا وہ 40 سال کی جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان حالات میں حکومت کو تجویز ہے ہمیں عالمی امداد کی ضرورت ہے، کوئی بھی ملک امداد بغیر شرائط کے نہیں دیتا۔ دنیا بھرکے سرمایہ کارافغانستان میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں۔