پاکستان کرکٹ بورڈ کے بلامقابلہ منتخب ہونے والے چیئرمین رمیز راجہ کا انڈر 19 کرکٹر سے پی سی بی کی چیئرمین شپ تک کا سفر کیسا رہا ؟اس پر روشی ڈالتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ 10نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں 4اداروں کے اور 4ریجنز کے نمائندے ہیں جبکہ 2نمائندے حکومت کے ہوتے ہیں جن کے نام وزیراعظم کی طرف سے دیئے جاتے ہیں ان میں سے ایک چیئرمین منتخب ہوتا ہے اور رمیز راجہ کو 13 ستمبر کو اس عہدے پر بلامقابلہ منتخب کیا گیا ۔
رمیز راجہ کون ہیں؟
یہ سنہ 1981 کی بات ہے جب آسٹریلیا کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی ،دورے کا دوسرا انڈر 19 ٹیسٹ حیدر آباد کے نیاز اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا تھا، یہی وہ میچ ہے جس میں نوجوان رمیز راجہ کی صلاحیتیں پہلی بار کُھل کر سامنے آئیں۔
رمیز راجہ پاکستان کی انڈر 19 ٹیم کے کپتان تھے اور انہوں نے پاکستان کی واحد اننگز میں ناقابل شکست 162 رنز سکور کئے تھے، اس اننگز کے بعد ہی وہ مستقبل کے ٹیلنٹڈ ٹیسٹ کرکٹر سمجھے جانے لگے تھےلیکن کرکٹ میں انہیں کسی سے متاثر ہونے کیلئے کہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی، ان کے گھر میں ہی بہترین مثالیں موجود تھی۔
رمیز راجہ کرکٹ میں اتفاقیہ نہیں آئے تھے بلکہ اپنے بڑوں کو کھیلتا دیکھ کر انہوں نے بھی کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا،ان کے والد راجہ سلیم اختر ملتان اور لاہور کے کمشنر ہونے کے علاوہ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے ،بڑے بھائی زعیم راجہ نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی لیکن رمیز راجہ کیلئےاس کھیل میں کشش سب سے بڑے بھائی وسیم راجہ کی وجہ سے بھی تھی جو ستر اور اسی کی دہائی میں جارحانہ بیٹنگ کا ٹریڈ مارک تھے۔
رمیز راجہ ان کرکٹرز میں سے ایک ہیں جنوجں نے کرکٹ کی وجہ سے تعلیم کو پسِ پشت نہیں ڈالا بلکہ ایچیسن کالج اور پنجاب یونیورسٹی جیسی درسگاہوں سے حاصل کردہ اپنی علمی قابلیت کو اس کھیل میں رہتے ہوئے بڑی عمدگی سے استعمال کیا۔
رمیز راجہ کے بین الاقوامی کریئر میں اتار چڑھاؤ
رمیز راجہ کا ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا خواب 1984 میں باب ولس کی قیادت میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی انگلینڈ کی ٹیم کخلا ف کراچی ٹیسٹ میں پورا ہوگیا،دوہری خوشی اس لئے بھی تھی کہ بڑے بھائی وسیم راجہ بھی اس ٹیسٹ میں ان کے ساتھ موجود تھے۔ لیکن کارکردگی کے لحاظ سے یہ ٹیسٹ دونوں بھائیوں کیلئے مایوس کن ثابت ہوا تھا۔
رمیز راجہ کا ٹیسٹ کیریئر 57 میچوں پر محیط رہا جس میں انہوں نے 2 سنچریوں اور 22 نصف سنچریوں کی مدد سے 2833 رنز سکور کئےجبکہ انہوں نے 198 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی،9سنچریوں اور 31 نصف سنچریوں کی مدد سے رمیز راجہ نے محدود اوورز کے کھیل میں 5841 رنز بنائے۔
رمیزراجہ کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ شاید 92 ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت رہا،وہ 1992 عالمی کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے جس کے کپتان عمران خان تھے۔
اس عالمی کپ میں رمیز راجہ نے 2سنچریاں سکور کی تھیں جبکہ فائنل میں پاکستان نے انگلینڈ کی جس آخری وکٹ (رچرڈ النگورتھ) کو حاصل کر کے عالمی کپ جیتا وہ کیچ رمیز راجہ نے ہی اپنے کپتان کی گیند پر لیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عالمی کپ کے فوراً بعد عمران خان کے خلاف جن کرکٹرز نے بغاوت کی تھی ان میں رمیز راجہ، سلیم ملک اور جاوید میانداد کو خیال کیا جاتا ہے۔
رمیز راجہ پانچ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کے کپتان بھی رہے جن میں سے پاکستان نے ایک جیتا، 2 ہارے اور 2ڈرا رہے۔
ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی وہ کامیاب کپتان ثابت نہ ہوسکے ،ان کی قیادت میں کھیلے گئے 22 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان نے صرف سات میں کامیابی حاصل کی، 13 میں شکست ہوئی جبکہ 2میچوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
میچ فکسنگ کے دور میں صاف کردار
نوے کی دہائی میں جب پاکستان کی کرکٹ کو میچ فکسنگ سکینڈل نے بری طرح جکڑا ہوا تھا، اس دور میں رمیز راجہ ان چند ہی کرکٹرز میں سے ایک تھے جن پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں لگا۔
وہ صاف شفاف کردار کے مالک کے طور پر پہچانے گئے بلکہ میچ فکسنگ کیخلاف انہوں نے آواز بلند کی۔
کرکٹ کرپشن کے بارے میں رمیز راجہ کا ہمیشہ سے واضح اور دو ٹوک مؤقف رہا ہے کہ جو بھی کرکٹر فکسنگ میں ملوث رہا،اسے دوبارہ پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا موقع نہیں ملنا چاہیئے بلکہ وہ ایسے کھلاڑی کو جیل بھیجنے کی بات بھی کرچکے ہیں۔
مائیک اور کمنٹری سے دوستی
رمیز راجہ نے بحیثیت کرکٹر کریئر ختم ہونے کے بعد مائیک سے ایسی دوستی کی جو آج تک برقرار ہے۔
بحیثیت کمنٹیٹر رمیز راجہ نے دنیا بھر میں اپنی شناخت ایک ایسے تجزیہ کار اور مبصر کے طور پر کرائی جس کی بات کو نہ صرف توجہ سے سنا جاتا ہے بلکہ ان میں وزن بھی ہوتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ سے رمیز راجہ کی پرانی وابستگی اور استعفی
رمیز راجہ نے نہ صرف اپنی بیشتر کرکٹ قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی ہے بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ہیڈ کوارٹر بھی ان کیلئے نیا نہیں ہے۔
سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں وہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیا کے دور میں بورڈ کی ایڈوائزری کونسل کے رکن تھے جس کے بعد انہیں ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز بنا دیا گیا تھا،یہ عہدہ بعد میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) میں تبدیل ہوگیا تھا۔
رمیز راجہ اس عہدے پر شہریارخان کے دور میں بھی فائز رہے، باب وولمر کو پاکستانی ٹیم کے کوچ کے طور پر لانے والے رمیز راجہ ہی تھے لیکن ایک وقت وہ آیا جب شہریارخان نے ان سے کمنٹری اور کرکٹ بورڈ میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا۔
اس کا نتیجہ رمیز راجہ کے استعفے کی صورت میں سنہ 2004 میں سامنے آیا تھا تاہم شہریارخان نے اپنی کتاب میں یہ تسلیم کیا ہے کہ رمیز راجہ کا متبادل تلاش کئے بغیر ان سے استعفی لینا میری غلطی تھی۔