وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں افغانستان میں امن اور استحکام کےلئے بہترین طریقہ طالبان کے ساتھ بات چیت اور حقوقِ نسواں اور کُلی حکومت جیسے معاملات پر ان کی حوصلہ افزائی ہے.
بدھ کو بنی گالا میں سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے پاکستان اور امریکا کے درمیان طویل تعلقات کیسے پاکستان کےلئے نقصان دہ ثابت ہوئے اور افغانستان کے نئے رہنماؤں کے ساتھ معاملات کیسے لےکر چلیں گی متعلق خیالات کا اظہار کیا.
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ طاقت میں آنے اور امریکی فوج کےانخلاء کے بعد یہ وزیر اعظم کا کسی بین الاقوامی ادارے کو دیا جانے والا پہلا انٹرویو ہے.
عمران خان نے کہا طالبان کے پاس پورا افغانستان ہےاگر وہ اب ایک کُلی حکومت بنا پائے اور تمام دھڑوں کو ایک ساتھ کھڑا کرلیا تو افغانستان میں 40 برس بعد امن ہوسکتا ہے. لیکن اگر یہ غلط ہوا اور اس چیز کےلئے ہم فکرمند ہیں کہ اس سے افراتفریح پھیل سکتی ہے. ایک بڑا انسانی بحران، مہاجرین کا مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے.
عمران خان کا کہناتھاکہ طالبان بحران سے بچنے کےلئے بین الاقوامی امداد کی جانب دیکھ رہے ہیں جو ان کو قانونی حیثیت کی طرف لیےجانے کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے.
تاہم وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ افغانستان کو بیرونی قوتوں سے قابو نہیں کیا جاسکتا.
انہوں نے کہا افغانستان میں لوگ کسی کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے. تو بجائے اس کے کہ باہر بیٹھ کر یہ سوچا جائے کہ ہم انہیں قابو کرسکتے ہیں، ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے. کیوں کہ افغانستان میں اس موجودہ حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ بیرونی امداد کے بغیر وہ اس بحران کو روکنے کے قابل نہیں ہیں. لہٰذا ہمیں انہیں صحیح سمت پر دھکیلنے کی ضرورت ہے.
عمران خان نے کہا ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز نے ہمیں بتایا کہ طالبان پورے افغانستان پر قبضہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور اگر انہوں نے افغانستان کو عسکری بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کی تو ایک طویل خانہ جنگی ہوگی اور اس چیز کا ہمیں ڈر ہے کیوں کہ ہم ہی ہیں جو سب سے زیادہ اس چیز کو بھگتیں گے.
انہوں نے مزید کہا اب دنیا کو انہیں قانونی حکومت بنانے اور وعدوں کی پاسداری کےلئے وقت دینا چاہیئے.