ڈنمارک کے فیرو جزائر میں ہفتے کی رات کو ایک روایتی شکار کے حصے کے طور پر ایک ہزار سے زائد ڈولفنز کو ذبح کیے جانے پر جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ کے مطابق جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’شکار کے دوران تقریباً 15 سو اٹلانٹک سفید چہرے والی ڈولفنز کو چاقوؤں اور برچھیوں سے مارا گیا۔ اس عمل کو ڈنمارک کے جزیروں کے رہائشی ’ "گرینڈادراپ" کہتے ہیں۔
سی شیفرڈ کیمپین گروپ نے سینکڑوں ڈولفنز کی فوٹیج شیئر کی جو ساحل پر مردہ حالت میں پڑی ہیں اور ان کے زخموں سے رسنے والے خون سے سمندر سرخ ہو رہا ہے۔
ویڈیو میں ایسے لوگوں کو بھی دکھایا گیا ہے جو کم گہرے پانی میں پھنسی نیم مردہ ڈولفنز کو روکنے اور مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سی شیفرڈ کیمپین گروپ نے فیس بک پر لکھا کہ ’کل فیرو جزائر نے فیروز کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا مجموعہ ذبح کیا۔‘
مقامی لوگوں کو اس قسم کے تمام شکاروں کو روکنے کا مطالبہ کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟
بہت سے دیگر لوگوں نے بھی اس عمل سے اپنی بیزاری کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
آن لائن کیمپین کرنے والے گروپ بلیو پلینیٹ سوسائٹی نے ٹویٹ کی کہ ’جزائر فیرو میں کچھ لوگ کل 1428 سفید چہرے والے ڈولفنز کے قابل مذمت شکار کو "تاریخ کا سب سے بڑا گرائنڈراپ" قرار دے رہے ہیں۔‘
’اگر یہ درست ہے تو یہ واقعی خوفناک ہے۔‘
اس شکار کی روایت یہ ہے کہ کشتیاں ڈولفن یا وہیل کے ایک گروہ کو گھیر لیتی ہیں اور انہیں ایک خلیج یا لمبی تنگ سی جگہ لے جاتی ہیں جہاں انہیں ان کے گوشت کے لیے قتل کر دیا جاتا ہے۔
اب اس عمل کو حکومت کی طرف سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور شکاریوں کو اس عمل کی تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے اور انہیں صرف ان خلیجوں تک محدود رہنا ہوتا ہے جن کی حکومت طرف سے اجازت ہے۔
جزیرے کی حکومت نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ ’جزائر فیرو میں وہیلنگ کو صدیوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔‘
’قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ شکار اس طرح سے کیا جائے کہ وہیل کو ممکنہ حد تک کم تکلیف پہنچے۔‘
تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اس عمل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے وہ غیر ضروری اور ظالمانہ قرار دیتے ہیں۔