گیارہ ستمبر کے حملوں (9/11) کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر القاعدہ کے حالیہ سربراہ ایمن الظواہری کی ایک نئی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس کے بعد ان کے مرنے کی تماما افواہوں نے دم توڑ دیا ہے۔
ترک خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی ویب سائٹس پر نظر رکھنے والے "سائٹ انٹیلی جنس گروپ" کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز جاری ویڈیو میں الظواہری نے کہا کہ 'یروشلم کبھی بھی یہودی نہیں ہو گا' اور اس گروہ کے ان حملوں کی تعریف کی جن میں جنوری میں شام میں روسی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
وڈیو میں الظواہری نے رواں سال جنوری میں شام کے صوبے الرقہ کے علاقے تل السمن میں کار بم حملے کو سراہا۔ جس کی ذمے داری القاعدہ کے زیر انتظام گروپ "حراس الدين" نے قبول کی تھی۔
القاعدہ کے سربراہ نے زور دیا کہ دشمن پر اقتصادی اور عسکری دونوں طرح کے وار کیے جائیں۔
سائٹ کے مطابق الظواہری نے 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا بھی ذکر کیا۔ تاہم ان کے تبصرے ایک حالیہ ریکارڈنگ کی نشاندہی نہیں کرتے، کیونکہ طالبان کے ساتھ انخلا کا معاہدہ فروری 2020 میں ہوا تھا۔
سائٹ کے مطابق الظواہری نے گزشتہ ماہ افغانستان اور دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ لیکن اس نے یکم جنوری کے حملے کا ذکر کیا جس نے شمالی شام کے شہر رقہ کے کنارے روسی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ سال 2020 کے آخر سے افواہیں پھیل تھیں کہ الظواہری بیماری سے فوت ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد سے ، ہفتہ تک کوئی ویڈیو یا زندگی کا ثبوت سامنے نہیں آیا۔
سائٹ کی ڈائریکٹر ریٹا کاٹز نے اپنے ٹویٹ میں کہا، 'وہ اب بھی مرا ہوا ہوسکتا ہے ، حالانکہ اگر ایسا ہے تو یہ جنوری 2021 میں یا اس کے بعد کسی وقت ہوا ہے۔'
الظواہری کی تقریر 61 منٹ 37 سیکنڈ کی ویڈیو ریکارڈنگ پر مشتمل ہے جسے اصحاب میڈیا فاؤنڈیشن گروپ نے تیار کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں ، القاعدہ کو اپنے حریف داعش سے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا ہے، جسے اسلامک اسٹیٹ گروپ بھی کہا جاتا ہے۔
داعش نے 2014 میں عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قبضہ کر کے "خلافت" کا اعلان کیا اور پورے خطے کے متعدد ممالک میں ملحقہ تنظیموں کو بڑھا کر شہرت حاصل کی۔
عراق اور شام میں داعش کی جسمانی "خلافت" کو کچل دیا گیا، حالانکہ اس کے عسکریت پسند اب بھی سرگرم ہیں اور حملے کر رہے ہیں۔
داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو اکتوبر 2019 میں شمال مغربی شام میں امریکی سپیشل فورسز نے ایک چھاپے میں ہلاک کر دیا تھا۔
الظواہری ایک مصری ہیں جو 2011 میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد القاعدہ کے رہنما بنے۔
بعد ازاں القاعدہ تنظیم کی پوسٹس اور ریکارڈنگز میں الظواہری کی حالت کے بارے میں حقائق سامنے نہ آنے کے سبب ان شکوک کو تقویت ملی تھی۔
دوسری جانب افغان تحریک طالبان کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے باور کرایا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کے عناصر کے کسی بھی تربیتی مرکز ، بھرتی مرکز یا مالی رقوم جمع کرنے کے مرکز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک نے اس بات کا ارادہ دوحہ میں افغان مذاکرات کے دوران میں کیا تھا۔ شاہین کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف ہر گز استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان میں القاعدہ تنظیم کے حوالے سے رپورٹیں زمینی حقائق کی عکاس نہیں۔ بعض ممالک اقوام متحدہ اور سلامی کونسل کو القاعدہ کے عناصر کی تعداد سے متعلق "غیر حقیقی" اعداد و شمار اور معلومات پیش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل برطانیہ کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی "ایم آئی 5" کے سربراہ کین میکلم نے جمعے کے روز کہا تھا کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول نے شدت پسندوں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے نتیجے میں بڑے حملوں کی سازشیں ایک بار پھر سر اٹھا سکتی ہیں بالکل اسی طرح جیسا کہ القاعدہ تنظیم مغرب کے خلاف کر چکی ہے۔
میکلم کے مطابق افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کے سبب برطانیہ کو زیادہ بڑے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔