تحریر: فرزانہ علی
طور خم کراس کرتے ہی 13 کلومیٹر تک جب کنٹینرز اور ٹرکوں کی ایک لمبی لائن نظر آئی تو ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہا۔ ہم نے اُتر کر ٹرک ڈرائیورز سے بات کی تاکہ مسئلہ جانا جا سکے اور اگر کوئی بات کرنا چاہے تو ہم ان کا انٹریو کر لیں۔ چند ایک نے راضی مندی ظاہر کی اور ہم نے موبائل کے ذریعے اپنے کام کا آغاز کیا۔
تجارت میں درپیش مسائل پر ایک سٹوری کر کے ہیڈ آفس کو بھیجی اور اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔ ہمارا اگلا پڑاؤ مارکو بازار تھا جہاں ہم نے طورخم سے جلال آباد اور کابل جانے والے ٹیکسی ڈرائیورز کے مسائل پر بات چیت کرنا تھی جو سرحد کی جزوی بندش کی وجہ سے مسائل کا شکار تھے۔ مارکو بازار میں رکے تو اب بیپر کرنے کی باری ساتھی رپورٹر کی تھی۔ وہ اور کیمرہ مین موبائل لے کر باہر اترے ہی تھے کہ کچھ ہی منٹ میں کیمرہ مین واپس آگیا۔
کیا ہوا اتنی جلدی ہو گیا؟ میں نے پوچھا۔
کیمرہ مین نے کہا، 'نہیں میڈم طالبان آگئے اور سخت ناراض ہیں کہ ہمیں یہاں آنے اور کام کرنے کی اجازت کس نے دی۔'
تو۔۔۔؟ میں نے استفسار کیا۔
کیمرہ مین: بس ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔
کہاں۔۔۔؟
امیر صاحب کے پاس، کیمرہ مین بولا۔
اور میں۔۔۔؟
آپ یہاں گاڑی میں انتظار کریں، یہ ڈرائیور آپ کے ساتھ ہے۔ ہم موبائل پر رابطے میں رہیں گے۔
وہ تو یہ کہہ کر چلا گیا، لیکن میرے لئے ایک ایسی پریشانی کا آغاز ہو گیا جو بحیثیت خاتون ہیڈ ایک مشکل ذمہ داری سے جڑی تھی اور وہ تھی اپنی ٹیم کی حفاظت۔
آدھ گھنٹے کے دوران تین بار ڈرائیو پریشانی میں گاڑی میں آتا اور پھر ہمیں برا بھلا کہہ کر پھر چلا جاتا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اب یہ طالبان کی دنیا ہے اور یہاں ان کی مرضی کے خلاف کام نہیں ہوسکتا۔ آپ کو کیا ضرورت تھی یہاں آنے کی۔
اس کا ڈر اپنی جگہ صحیح تھا کیونکہ وہ وہاں کا باشندہ تھا اور مسائل کا ادراک اسے ہم سے زیادہ تھا، لیکن میں نے اُسے تسلی دلائی کہ جب امیر صاحب کو ساری حقیقت پتہ چلے گی تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمیں آگے جانے کی اجازت مل جائے گی۔
اس نے میری اس تسلی پر اثبات میں سر تو ہلا دیا لیکن اس کی آنکھوں میں تیرتی غیر یقینی نے مجھے بتا دیا کہ اُسے میری بات کا اعتبار نہیں ہے۔ آدھ گھنٹے بعد کیمرہ مین واپس آیا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا کہا۔
رپورٹر کہاں ہے؟ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ طالبان کی گاڑی میں ہے یہ ہمیں کہیں لے جارہے ہیں۔
کہاں ؟ میں نے پھر پوچھا۔
کیمرہ مین نے کہا، 'پتہ نہیں، بس یہ کہا ہے کہ امیر صاحب کے پاس جانا ہے۔'
دس منٹ کے سفر کے بعد ہم ایک حجرے میں داخل ہوئے۔ جہاں بہت سارے لوگ پہلے سے موجود تھے۔ ڈرائیو اور کیمرہ مین ایک بار پھر چلے گئے اور گاڑی کو سائیڈ پر کھڑا کر دیا جہاں میرا پردہ برقرار رہے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کھڑی کے شیشیے پر ایک بچی نے دستک دی۔
میں نے شیشیہ نیچے کیا تو اس نے پوچھا کہ میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟ میرے بتانے پر کہا ساتھیوں کے ساتھ آئی ہوں۔
کہاں جا رہی ہو؟ اس نے پوچھا۔
میں نے کہہ دیا کابل۔
وہ بولی، 'یہ لوگ تمھیں یہاں کیوں لائے؟'
پتہ نہیں۔
میں نے پوچھا تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہی ہو۔ اس نے بتایا کہ اُسکا نام مزدلفہ ہے اور یہ انکا حجرہ ہے۔
یہ یہاں اتنی بھیڑ کیوں ہے؟
میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جرگہ ہو رہا ہے۔
یہ بات کرتے ہوئے وہ بار بار نیچے ہو جاتی جیسے کسی سے چھپ رہی ہو۔
تم کتنے سال کی ہو اور کس سے چھپ رہی ہو؟
ننھی مزدلفہ بولی، 12سال ۔۔۔ اپنے چچا سے اور ان لوگوں سے، یہ لڑکیوں کا حجروں میں آنا پسند نہیں کرتے۔
تو تم یہاں کیوں آئی ہو؟
مزدلفہ بولی، 'بھائی نے گھر میں آکر آپ کے بارے میں بتایا تو آپ کو دیکھنے آگئی۔'
مزدلفہ نے پوچھا آپ پڑھی لکھی ہو؟
ہاں۔
کتنا؟
جواب دیا، یونیورسٹی تک۔
مزدلفہ نے کہا کہ مجھے بھی پڑھنے کا بہت شوق ہے لیکن چچا اجازت نہیں دیتا۔
ابھی پڑھ رہی ہو؟ میں نے اسفسار کیا۔
ہاں ابھی تو چوتھی میں ہوں لیکن بہت سا پڑھنا چاہتی ہو جو پتہ نہیں اب ممکن ہو گا یا نہیں۔
جب حالات ٹھیک ہونگے تو ہو جائے گا پریشان مت ہو۔ میں نے اُسے تسلی دی۔
بچی نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔
آپ کو لگتا ہے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟
اُمید تو ہے۔
مزدلفہ بولی، لیکن مجھے نہیں ہے۔
کیوں؟
میرے سوال پر اس نے کہا کہ میری امی کہتی ہے کہ خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ گھر کے کام سیکھو کیونکہ دو تین سال میں تمھاری شادی ہو جائے گی۔
ہماری گفتگو کے دوارن مزدلفہ کی کزن عائشہ بھی آگئی، اسی کی ہم عمر لگ رہی تھی لیکن خاموش کھڑی رہی۔
اس کے مہندی لگے ہاتھ دیکھ کر میں نے کہا میں آپ دونوں کے ہاتھوں کی تصویر اتاروں۔
ان کی اجازت سے تصویر بنائی تو دونوں خوش ہو گئیں۔
مزدلفہ نے بتایا کہ وہ ایک بار اپنی خالہ کے ساتھ پشاور آئی تھی۔ اُسے پشاور بہت اچھا لگا۔
ایک نوجوان کے گاڑی کی طرف آنے پر وہ گھر کی طرف بھاگ گئیں اور میں ایک بار پھر اکیلی ہو گئی۔
اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا۔ گھنٹے پھر بعد کیمرہ مین اور ڈرائیور آئے اور گاڑی چل پڑی۔
میں نے پھر رپورٹر کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا وہ طالبان کی گاڑی میں ہے۔
کیوں؟
اس لئے کہ اب یہ ہمیں بڑے امیر کے پاس لے کر جا رہے ہیں۔
لیکن کہاں؟
پتہ نہیں۔
گاڑی کا سفر شروع ہوا اور 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد پہاڑ پر بنی ایک پرانی ٹوٹی پھوٹی عمارت میں ہمیں پہنچا دیا گیا۔ وہاں ایک امیر صاحب کی عدالت میں ہم پیش کر دیا گیا۔ چاروں طرف نوجوان طالبان بھاری اسلحہ اُٹھائے موجود تھے۔ کچھ کے جسم پر موجود جیکٹ میں گرنیڈ بھی لگے ہوئے تھے۔ مجھے گاڑی سے نکال کر ایک پرانے سے چھوٹے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔
کمرے میں ایک طرف پرانا اور انتہائی میلا سا میٹریس بچھا تھا۔ چھوٹی سے چٹائی اور اس کے آگے رکھا پرانا سا روم کولر جو شاید اپنی مدت سے بہت زیادہ چل چکا تھا۔ جس میں پانی کی ایک بوند تک نہیں تھی لیکن شاید پنکھے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
کمرے میں کھڑکی کے ساتھ کچھ بوٹ پڑے تھے اور ساتھ ہی دیوار پر بڑی تعداد میں فوجی یونیفارم اور جیکٹس بھی تھیں۔ کچھ یونیفارم اینٹوں سے بنائے گئے شیلف پر بھی پڑے تھے۔ چھت پر لگا پنکھا چلنے سے ذیادہ ہل رہا تھا۔
کئی ساعتیں اسی طرح گزر گئیں۔ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد کھڑے ہو کر کھڑکی سے دیکھنے کی کوشش کرتی لیکن اسلحہ بردار نوجوان کے گزرنے پر واپس آکر بیٹھ جاتی۔
گھنٹہ پھر گزرنے کے بعد کیمرہ مین آتا دکھائی دیا تو کچھ حوصلہ ملا۔
کیا ہوا؟
جی وہ آپ کا شناختی اور آفس کارڈ چاہیے۔
کیوں؟
وہ کہہ رہے ہیں کہ جلال آباد بھیجنا ہے، واٹس ایپ کریں گے۔
میں نے دیا تو وہ لے کر چلا گیا۔
کافی دیر بعد ایک بار پھر کیمرہ مین آیا اور بتایا کہ جانے کی اجازت مل گئی ۔
کہاں جا رہے ہیں۔
کابل جائیں گے کیونکہ انہوں کہا کہ یا کابل جائیں گے۔
گاڑی چل پڑی اور اب ہماری منزل کابل تھی۔ کافی دیر تک کوئی کچھ نہیں بولا۔ آخر میں نے ہی ہمت کی اور پوچھا مسئلہ کیا تھا۔ تو ساتھی نے بتایا کہ دو مسئلہ تھے۔
ایک یہ کہ بغیر اجازت کیوں آئے اور دوسرا خاتون بغیر محرم کے آپ کے ساتھ کیوں ہے ؟
تو آپ نے کیا کہا۔
بس چپ کر کے سنتا رہا اور کیا کہتا۔ جب کچھ دلیل دینے کی کوشش کی تو امیر صاحب نے وہ دلیل یہ کہہ کر رد کر دی کہ یہ آپ پردے کی آیت آنے سے پہلے کی بات کر رہے ہیں جس میں کوئی وزن نہیں۔ آپ مان لیں کہ آپ غیر شرعی کام کر رہے ہیں جس کی ایک مسلمان ہونے کے ناطے قطعی اجازت نہیں۔
یہ تحریر تین حصوں پر مشتمل ہے جس کے بقیہ دو حصے جلد پیش کیے جائیں گے۔
اس تحریر کی مصنفہ فرزانہ علی ہیں جو آج نیوز پشاور کی بیورو چیف ہیں۔