ایران کے رہبرمعظم آیت اللہ علی خامنہ ای کہتے ہیں بائیڈن انتظامیہ کے ان کے ملک سے مطالبات ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات کے جیسے ہی ہیں. تہران کو ان دونوں میں کوئی فرق نظرنہیں آتا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کےمطابق خامنہ ای نے ہفتےکے روزصدر ابراہیم رئیسی اور ان کی کابینہ سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا موجودہ امریکی انتظامیہ سابق انتظامیہ سے چنداں مختلف نہیں.ان کے مطالبات ٹرمپ کے مطالبات جیسے ہی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے بائیڈن انتظامیہ کا چلاک لومڑی سے موازنہ کرتے ہوئے کہا امریکا کی خارجہ پالیسی کے پس پردہ ایک شکاری بھیڑیا کارفرماہے جو بعض اوقات ایک چالاک لومڑی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
امریکا اورایران2015ء میں طے شدہ جوہری معاہدے کی بحالی کےلئے اپریل سے ویانا میں بالواسطہ بات چیت کررہے ہیں۔امریکا 2018ء میں سابق صدرڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں اس سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہو گیا تھا اوراس نے ایران کی معیشت کو کم زورکرنے کےلئے دوبارہ سخت پابندیاں عائد کردیں تھیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا آخری دور 20 جون کوختم ہوا تھا۔اس کے بعد سے مذاکرات کی بحالی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اور دونوں ملکوں ہی ایک دوسرے سے مختلف مطالبات کررہے ہیں مگر ایران کسی بھی تقاضے کو پورا کرنے سے قبل امریکا سے تمام معاشی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہا ہے۔
خامنہ ای نے نئے صدرابراہیم رئیسی کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایران کے اقتصادی مسائل کے حل کو پابندیوں سے نجات سے مشروط نہ کریں بلکہ معاشی مسائل کے حل کے منصوبے اس مفروضے کے ساتھ وضع کیے جائیں کہ ملک پر بدستور پابندیاں عائد ہیں۔
ایرانی سپریم لیڈرنے اپنی تقریر میں امریکا کو افغانستان میں جاری صورت حال کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران افغان عوام کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ کابل میں کسی بھی نئی حکومت کے ساتھ ایران کے تعلقات باہمی تعامل پر مبنی ہوں گے۔حکومتوں کے ساتھ ہمارے دوطرفہ تعلقات کی نوعیت کا انحصار ان کی ہمارے ساتھ تعلق داری کی نوعیت پرہے۔