واٹس ایپ پر مدھم مدھم لیکن بجھے ہوئے لہجے میں سعیدہ غزنی نے مجھ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں اب پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔ میں ایک قسم کی ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ میں پہلے کی طرح اپنے خوابوں پر عمل نہیں کر سکتی۔
یونیورسٹی آف افغانستان میں انٹرنیشنل ریلیشن کی طالبہ سعیدہ غزنی وال کے اپنے اور اپنے ملک سے متعلق بہت سے خواب تھے لیکن اب انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کی ترقی کے لئے جو لاتعداد خواب دیکھے تھے وہ سب کچھ برباد ہو چکا ہے۔
سعیدہ نے رندھی آواز میں کہا کہ، تم جانتی ہو میرے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ میں افغان بیٹی ہوں لیکن میں کچھ نہیں کہہ سکتی، مجھے اپنے وطن سے پیار ہے میں اسے نہیں چھوڑنا چاہتی، لیکن شاید میں اپنا وطن چھوڑ دوں۔ طالبان جو کچھ عالمی براداری کے دباؤ میں آکر کہہ رہے ہیں افغان خواتین ان میں سے کسی پر یقین نہیں رکھتیں۔
کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنا قدرے اعتدال پسند تاثر دینے کی کوشش کی اور کسی حد تک خواتین کی آزادی اور آزادیِ اظہار رائے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ لیکن اپنی گذشتہ پریس کانفرنس میں انہوں نے انتظار کرنے کی بات کر کے معاملات کو مشکوک کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ کام کرنے والی خواتین کو اُس وقت تک گھروں میں بیٹھنا چاہیے جب تک ان کی حفاظت کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ایک عارضی اقدام ہے اور افغان خواتین پر پابندیاں بہت تھوڑے عرصے کے لیے ہوں گی۔ ان پابندیوں کی وجہ انہوں نے کچھ یُوں بیان کی کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کو پتہ نہیں ہے خواتین کے ساتھ معاملات کیسے کرنے ہیں، خواتین سے بات کیسے کرنی ہے۔ اس لئے جب تک ہمارے پاس سیکیورٹی کے مکمل انتظامات نہیں ہیں ہم خواتین سے کہیں گے کہ وہ گھروں میں رہیں۔
اور اسی نقطے کو لے کر سعیدہ الجھن کا شکار ہیں۔ اُنہوں نے شبنم داورن سمیت اُن صحافی خواتین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کا معاملہ ہی دیکھ لیں پہلے کیا کہا اور پھر اُن کے کام کرنے پر پابندی لگا دی۔ طالبان کہتے ہیں کہ وہ افغان خواتین کے لیے صحیح ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے۔
خوبواں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھنے والی یہ طالبہ اپنی آواز دنیا تک پہنچانا چاہتی ہیں، اُنہوں نے کہا کہ آپ دنیا کو بتائیں ہمارے خواب ٹوٹنے نہ دیں۔ سعیدہ کی باتوں میں اُلجھی بیٹھی تھی کہ ڈاکٹر شکریہ نظامی کا پیغام ملا جس میں بے اعتباری کا عنصر نمایاں نظر آیا۔
شکریہ نظامی نے کہا کہ میں واقعی اس صورتحال میں حتمی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ ہر کوئی حکومت کے قیام کے بعد ان کے رد عمل کا انتظار کر رہا ہے۔ اگرچہ اب یہ سب معمول کے مطابق برتاؤ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں ان کے بیانات سن کر سوچتی ہوں کہ کیا اب پہلے کی طرح خاتون نائب صدر ہو گی؟ کیاخاتون جج بن سکے گی؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو لگتا ہے کہ کالا دور پھر سے دہرایا جاسکتا ہے۔
شکریہ نظامی کا خیال ہے کہ اگر ایک مخلوط حکومت بنتی ہے اور جو قوم کی مرضی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے حق میں ہو۔ وہ حقوق جو کہ بین الاقوامی برادری پہلے ہی خواتین کے لیے طے کر چکی ہے اور انتہا پسندی پر مبنی نہیں تو پھر اسلامی حجاب کے ساتھ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن فی الحال طالبان کے یہ الفاظ کہ خواتین کو شریعت کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہے سے نتیجہ نکالنا مشکل ہے۔
یونیورسٹی کی ہی ایک اور طالبہ ہیلن ایزگو بھی اچانک آنے والی تبدیلی سے مایوس نظر آئیں۔ ہیلن کا کہنا تھا کہ طالبان کے نمائندے نے افغانستان میں تمام افراد کے لیے مساوی حقوق کی بات کی چاہے ان کی جنس کوئی بھی ہو لیکن صرف شریعت یا اسلامی قوانین کے مطابق۔ اس سے ہم حیران ہیں کہ افغانستان میں اب تک شریعت کے خلاف کیا ہو رہا ہے۔ افغانستان ایک اسلامی ریاست تھی اور ہے۔ افغان فخر کرنے والے مسلمان ہیں خاص طور پر خواتین۔
لیکن جو بات پریشان کرنے والی ہے وہ یہ ہے کہ طالبان اپنے پہلے دور میں بھی یہی کہتے تھے کہ خواتین کے ساتھ شرعی قوانین کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے لیکن دنیا کو یاد ہو گا کہ خواتین کو ان کے کام کرنے ، تعلیم حاصل کرنے یا محرم (مرد رشتہ دار) کے بغیر باہر جانے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اگر یہ شریعت ہے تو اسکا صاف مطلب ہے کہ وہ ایک بار پھر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کا نفاذ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ اگر طالبان تبدیلی ، امن اور مساوات کی بات کرتے ہیں تو وہ سب سے پہلے خواتین اور لڑکیوں کو اُن کے حقوق سے محروم نہ کریں۔
ہیلن کو لگتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو برسوں کی محنت اور سرمایہ کاری سب بیکار جائے گی۔ انسانی حقوق کے لئے گزشتہ کئی سالوں سے کابل میں جہدو جہد کرنے والی فاطمہ کوہستانی سے میں نے پوچھا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں آپ کیا سمجھتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ طالبان نہیں بدلے ان کا عمل اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ گزشتہ دور میں تھا۔ انہوں نے بچیوں کی تعلیم کی بات کی لیکن وہ خواتین کو دوسرے شعبوں میں کام نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان اسلامک لاءکی بات کرتے ہیں لیکن اسکی تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی ذمہ دار ی ہے کہ طالبان کو مجبور کرے کہ وہ ہر شعبے میں خواتین کو آگے آنے دیں۔وہ خواتین کے مساوی حقوق کی بات کریں جو پہلے سے ہی افغانستان کے آئین میں واضح ہیں۔
تحریر: فرزانہ علی، بیورو چیف، آج نیوز پشاور