سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے مردوں کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
لاہور میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات سامنے آنے پر ایک خاتون صحافی نے چند برس قبل اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی ٹوئٹر پر شیئر کیا۔
خاتون صحافی نے لکھا کہ ’کراچی میں قائداعظم محمد علی جناح کے مزار پر رپورٹنگ کے دوران وہاں موجود 100 مردوں نے میرے ساتھ نازیبا حرکتیں کیں۔‘
اس پر بختاور بھٹو زردای نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک اور تکلیف دہ واقعہ، پولیس نے سارا منظر دیکھا اور ہتھیاروں کے ذریعے ہجوم کو منتشر کرنے کے بجائے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔‘
اپنے خیالات کا مزید ظہار کرتے ہوئے بختاور بھٹو نے لکھا کہ ’مردوں کے عوامی مقامات پر جانے پر پابندی عائد کی جائے۔ ہمیں خواتین کی مدد کرنے کے لیے زیادہ خواتین کی ضرورت ہے۔‘
بختاور بھٹو کی جانب سے دیے جانے والے ردعمل کے جواب میں صارف محمد شفیق لکھتے ہیں کہ ’عورتوں پر بھی بلا ضرورت باہر نکلنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ کسی بھی تہوار پر دنیا بھر میں ہلڑ بازی اور بدتمیزیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی عقل مند اپنی فیملی کو ان دنوں باہر لے کر کم ہی جاتا ہے۔ ان ایشوز پر تبصرے کے لیے وہ لوگ بلائے جاتے ہیں جن کا اس معاشرے سے کوئی تعلق نہیں۔‘
جہاں سوشل میڈیا صارفین نے مردوں کے عوامی مقامات پر جانے کی پابندی کے حوالے تبصرے کیے وہیں کچھ صارفین نے پولیس کی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔ ٹوئٹر سہیل تبصرہ کرتے ہیں کہ ’اس طرح کے مقامات پر عوام کی حفاظت کی کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔‘
بختاور بھٹو کی جانب سے مردوں کے عوامی مقامات پر جانے پر بابندی کے حوالے سے دیے گئے اس بیان پر کچھ صارفین تنقید کرتے دکھائی دیے جبکہ بعض صارفین ان کے بیان سے متفق نظر آئے۔
ٹوئٹر صارف وقاص نے بختاور بھٹو زرداری کی جانب سے دیے جانے والے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’دراصل میں آپ کے ساتھ تبدیلی کے لیے رضامند ہوں۔‘‘
صارفین عابدہ مختار لکھتی ہیں کہ ’ہمیں خواتین کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا تو صارفین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔ طویل تبصرے کرنے والوں میں سے ایک علی ترمذی نے مختصر الفاظ میں بختاور بھٹو کے بیان سے متفق ہونے کا کہا۔ لکھتے ہیں کہ ’ سو فی صد رضا مند۔‘
خیال رہے کہ لاہور میں 14 اگست کو گریٹر اقبال پارک میں بھی منچلوں نے ایک خاتون سے بدتمیزی کی،کپڑے پھاڑ ڈالے اور اسے ہوا میں اچھالتے رہے۔سوشل میڈیا پر اس واقعے کی گردش کرتی مختلف ویڈیوز میں متاثرہ لڑکی کو مدد کے لیے چیخ و پکار کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
جس کے بعد وزیراعظم عمران خان سمیت دیگرسیاسی و سماجی شخصیات نے لڑکی پرہجوم کے حملے اورہراسانی کے افسوس ناک واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ اس کیس میں اب تک چالیس افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جنہیں عدالت نے شناخت پریڈ کے لیے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس واقعے میں بھی اب تک 66 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
تحقیقات میں اس حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی اور گریٹر اقبال پارک انتظامیہ مقرر کردہ تعداد سے کم سیکیورٹی گارڈز فراہم کررہی تھی، پارک میں ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے کوئی مؤثر اقدامات نہیں تھے۔
نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق سپیشل برانچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گریٹر اقبال پارک میں سیکیورٹی گارڈ کی تعداد انتہائی کم ہے، گریٹر اقبال پارک میں بد انتظامی کی بھی اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی۔