کابل سے امریکا کے انخلا نے ویت نام کے سائگون سے انخلا کی یادیں تازہ کر دیں۔
تاریخ عام طور پر اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکا کی افغانستان میں شکست اور فرار سے لی جاسکتی ہے۔ 46 سال پیشتر امریکا کو ویتنام سے نکلنا پڑا تو امریکی فوج کو اپنا سفارتی عملہ ہنگامی حالت میں وہاں سے نکالنا پڑا۔ چھیالیس سال بعد وہی منظر ایک بار پھرافغانستان کے دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی اڈے پر دہرایا جا رہا ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر دو تصاویر گردش کررہی ہیں۔ اگرچہ دونوں کے درمیان ایک بڑا زمانی اور مکانی فاصلہ ہے مگر دونوں کی کیفیت اور منظر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔
پہلی تصویر ویت نام میں 1975 میں اور دوسرا افغانستان کل پیر روز سامنے آئی۔ایک تصویر ویت نام میں امریکی سفارت خانے کے اوپر اڑتے ہوئے ایک جہاز کو دکھایا گیا ہے۔ دوسری میں کابل میں اسی طرح کے انخلاء کے عمل کے دوران لی گئی ہے۔
30 اپریل 1975 کو ویت نام میں شروع ہونے والی امریکی فوجی مداخلت جو تقریباً 20 سال تک جاری رہی، تاریخ کے اوراق میں ایک وسیع پیمانے پر مہنگی اور سفاکانہ فوجی ناکامی سمجھی جاتی ہے۔
امریکا نے ویت نام کی جنگ پر 168 ارب ڈالر خرچ کیے جو آج 1 ٹریلین ڈالر کے برابر ہے۔
جبکہ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ امریکا کے لیے ایک خوفناک جنگ تھی۔ 58000 سے زائد امریکی فوجی ویت نام کی جنگ میں مارے گئے جبکہ افغانستان میں انسانی قیمت کم چکانا پڑی اور کل 2500 فوجیوں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔
نیو یارک ٹائمز کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں جنگ کی لاگت 2 کھرب ڈالر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں تقریباً 20 لاکھ عام شہری اور ایک ملین سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے۔
اسی طرح افغانستان میں، ایک قریبی اندازے سے پتہ چلتا ہے کہ تنازعے کے دوران 241000 افراد مارے گئے ہیں، جن میں 71000 سے زائد شہری شامل ہیں۔ جبکہ 2021 میں اب تک 1600 سے زیادہ سویلین اموات ہوچکی ہیں۔
اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان میں لاکھوں لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں اور تقریباً 20 لاکھ لوگ بیرون ملک فرار ہو کر پناہ گزین بن گئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد کی جنگوں میں افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، صومالیہ، فلپائن، لیبیا اور شام سے کم از کم 37 ملین افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
ان جنگوں سے اموات کا قعریبی تخمینہ ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔