نور مقدم قتل کیس کی جاری فرانزک رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا ڈی این اے اور فنگر پرنٹس جائے وقوعہ سے حاصل نمونوں سے میچ کرگئے ہیں۔
اسلام آباد میں آج ٹی وی کے نمائندے عثمان مظفر کے مطابق بدھ کو جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل کے 12 گھنٹے بعد نور مقدم کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
فرانزک رپورٹ کے مطابق گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے افراد ملزم ظاہر جعفر اور مقتولہ نور مقدم ہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جائے وقوعہ سے حاصل شدہ نمونوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ظاہر جعفر اور مقتولہ نور کے درمیان جنسی روابط قائم تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آلہ قتل پر بھی ملزم ظاہر جعفر کے فنگر پرنٹس ملے ہیں۔
نور مقدم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو تاحال خفیہ رکھا گیا ہے، تاہم ان کے جسم پر ملنے والے نشانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل سے قبل نور کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
قبل ازیں نور مقدم قتل کیس میں پولیس نے اہم گواہ زخمی امجد کا دفعہ 161 کے تحت بیان ریکارڈ کرلیا ہے، امجد تھراپی سینٹر کا ملازم اور موقع کا اہم گواہ ہے۔
امجد نے پولیس کو دئیے گئے بیان میں بتایا کہ تھراپی سینٹر کو ملزم کے والد نے کال کرکے اطلاع دی تھی، والد نے کہا ملزم کنٹرول سے باہر ہورہا ہے، ہم موقع پر تھراپی سینٹر کے 5 لوگ پہنچے تھے، ملزم نے پہلے مجھ پر فائرنگ کرنے کی کوشش کی مگر گولی نہ چلی، ملزم نے چھری سے میرے پیٹ پر وار کیا تو میں زخمی ہوگیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ امجد کے بیان کے بعد مقدمے میں 324 کی دفعہ شامل کردی گئی ہے، امجد زخمی ہے اس لیے کاغذی کارروائی کے لیے زیر حراست ظاہر کیا۔
پولیس کے مطابق امجد پر ملزم ظاہر جعفر کو کور اپ دینے کی کوشش کا بھی الزام ہے، امجد کا نام ملزمان کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھنے والے نور مقدم کے مبینہ قاتل ظاہر جعفر نے اپنی قریبی دوست کو اس قدر بہیمانہ انداز میں قتل کیوں کیا کہ اس کا سر ہی دھڑ سے الگ کردیا۔ وہ کیا حالات تھے جن میں یہ سنگین واردات رونما ہوئی۔ ان تمام سوالات کے جوابات سامنے آنا باقی ہیں۔
٭ بیس جولائی کی شام کیا ہوا۔۔۔؟
پولیس حکام کے مطابق گزشتہ ماہ 20 جولائی کو عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل شام سات بجے کے قریب پولیس کو ایک کال موصول ہوئی۔ جس میں بتایا گیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں ایک گھر میں ہنگامہ آرائی جاری ہے اور یہاں ایک قتل بھی ہو گیا ہے۔
اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی تو سنگین واردات دیکھ کر پولیس اہل کار بھی سکتے میں آگئے اور پولیس نے ملزم کو قابو کیا جو کسی طور قابو میں نہیں آ رہا تھا اور پولیس اہل کاروں پر ہی حملہ آور ہو رہا تھا۔
فوری طور پر پولیس کے اعلیٰ حکام کو اطلاع دی گئی اور مقتولہ کے ایک سابق سفارت کار کی صاحبزادی ہونے کے انکشاف پر اور بھی کھلبلی مچ گئی، تمام اہم افسران اور فرانزک ماہرین موقع پر پہنچ گئے۔
ظاہر جعفر کو وہاں موجود پولیس نے ہاتھ اور پاؤں سے باندھ رکھا تھا اور اسی حالت میں اسے تھانے منتقل کر دیا گیا۔
مقتولہ نور مقدم کی لاش اٹھانے سے پہلے پورے کمرے کی تصویر کشی کی گئی اور فرانزک ماہرین سمیت پولیس کے تفتیشی افسران نے کمرے کی تصویریں بنائیں۔ قتل میں استعمال ہونے والی چھری ملزم ظاہر جعفر کے ہاتھ میں تھی، وہ قبضہ میں لی گئی جس پر ظاہر کے فنگر پرنٹس بھی موجود تھے۔
تفتیش سے منسلک اہلکار کا کہنا ہے کہ قتل کے دوران ایک سے زائد چھریاں استعمال کی گئیں کیونکہ قتل کے بعد گردن الگ کرنے کے لیے ایک چھری کارآمد نہیں تھی جس کے بعد ملزم نے دوسری چھری استعمال کی۔ کمرے میں موجود پستول قبضے میں لیا گیا جس میں گولی پھنسی ہوئی تھی۔
کمرے سے ہی نور مقدم کا موبائل فون اس کے کپڑے اور دیگر اشیا بھی برآمد ہوئیں جنہیں قبضہ میں لے لیا گیا اور موقع واردات کو سیل کر دیا گیا۔
اگلے روز دوبارہ فرانزک ماہرین موقع واردات پر پہنچے اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔ فریج اور کچن میں موجود کھانے پینے کی اشیا کے نمونے لیے گئے۔ کمرے میں موجود گلاس، بیڈ شیٹس اور دیگر سامان بھی قبضے میں لیا گیا۔
سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق نور مقدم نے بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر باہر گیٹ کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن گیٹ بند ہونے کی وجہ سے وہ باہر نہیں جا سکی۔ اس کے بعد اس نے گھر کے اندر موجود گارڈ کے کیبن کے اندر پناہ لینے کی کوشش کی۔
اس دوران گارڈ گھر سے باہر موجود رہا اور ملزم ظاہر جعفر اوپر سے دوڑتا ہوا آیا اور نور مقدم کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا اوپر لے گیا۔
کمرے کے اندر ظاہر جعفر نے اس لڑکی کو کیسے قتل کیا، یہ ملزم نے پولیس کو بتایا تو ہے لیکن اس کی ہولناک تفصیلات اب تک پولیس نے میڈیا سے شیئر نہیں کیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق سفارت کار کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل کی اصل وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں، موقع واردات سے قاتل کی گرفتاری کے باوجود اس دل دہلا دینے والے قتل کی کئی گتھیاں اب بھی سلجھنا باقی ہیں۔