Aaj Logo

شائع 09 اگست 2021 08:11pm

'میں پاکستان میں سینسرشپ کی زندہ مثال ہوں'

سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن کوئی جمہوریت نہیں۔ آئین ہے لیکن کوئی آئین نہیں۔ میں پاکستان میں سینسرشپ کی زندہ مثال ہوں۔

سینئرصحافی حامد میر نے بی بی سی کے مشہور زمانہ پروگرام ہارڈ ٹاک ود اسٹیفن سکر کو انٹرویو دیا۔ جس میں انہوں نے سینسرشپ اور نئے میڈیا قوانین کے متعلق کھل کر بات کی۔

9 اگست 2021 کو ریلیز ہونے والی قسط میں میزبان اسٹیفن سکر اور حامد میر کے درمیان سوال و جواب کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:

میزبان: کیا پاکستانی ریاست آزاد صحافت کو خاموش کرانے پر تُلی ہوئی ہے؟ آپ کا شو ابھی بھی بند ہے، کیوں؟

حامد میر: ٹی وی پر مجھ پر پابندی ہے اور میں اخبار میں اپنا کالم بھی نہیں لکھ سکتا۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ جب پرویز مشرف اقتدار میں تھے، انہوں نے صرف مجھ پر ٹی وی پر پابندی لگائی تھی، انہوں نے میرے اخبار میں لکھنے پر کبھی پابندی نہیں لگائی۔ اب عمران خان وزیر اعظم پاکستان ہیں اور بدقسمتی سے مجھ پر نہ صرف ٹی وی پر پابندی ہے بلکہ میرے اخبار کے کالم پر بھی پابندی ہے۔پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن جمہوریت نہیں ہے۔ آئین ہے پر آئین نہیں ہے۔ اور میں پاکستان میں سینسرشپ کی زندہ مثال ہوں۔

میزبان: آپ کی معطلی اس دھواں دار تقریر کے نتیجے میں ہوئی جو مئی کے آخر میں آپ نے نیشنل پریس کلب میں جب آپ نے ان طاقتوں کےحوالےسےبات کی جو پاکستان میں صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ کچھ دن قبل ایک صحافی پر اس کے گھر میں حملہ کیا گیا۔ اُن طاقتوں سے آپ کا کیا مطلب تھا اور ان کو صحافیوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا کیا مطلب تھا؟

حامد میر: میں پاکستان میں کئی قاتلانہ حملوں میں بچ نکلا اورمجھےکبھی انصاف نہیں ملا۔مجھ پر جھوٹے مقدمے تھوپنے کی کوشش کی گئی اور عدالتوں نے مجھے بےگناہ قرار دیا۔ مجھے بار بار دھمکایا گیا جب ہمارے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اُس ہی دن 28 مئی کو جب میں نے تقریر کی آپ کے شو میں گفتگو کی تو انہوں نے کہا کچھ صحافی ہیں جو پاکستان سے باہر پناہ حاصل کرنے کےلئے ڈرامہ رچاتے ہیں۔ اور میں اپنے صحافی برادر کے ساتھ کھڑا تھا جس پر اس کے گھر میں حملہ ہوا تھا۔ وہ ایک نوجوان صحافی ہے اور میں اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہا تھا۔ تو میں نے کہا جب پاکستان میں ایک صحافی پر حملہ ہوتا ہے تو کوئی انصاف نہیں ہوتا اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمان کی نشاندہی میں ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔تو اگر آپ ہمیں انصاف فراہم نہیں کریں گےپھر ہم وہ نام لینے پر مجبور ہوں گے جن کو ہم قصوروار سمجھتے ہیں اور۔۔۔۔

میزبان: اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ نام لیں گے؟ آپ کو کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسد طور پر کس نے حملہ کیااور ماضی میں آپ کو کیسے علم کیوں کسی کو بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا؟

حامد میر: میرے معاملے میں،جب میں کراچی میں ایک قاتلانہ حملے میں بچا، مجھے چھ گولیاں ماری گئیں جن میں سے دو ابھی بھی میرے جسم میں ہیں۔ میں نے ایک شخص کا نام لیا، انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کا، پھر نواز شریف کی حکومت نے سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز پر مشتمل تین رکنی تفتیشی کمیشن بنایا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان شامل تھے۔اور میں نے اس کمیشن کے سامنے اپنا بیان دیا، ایک بار نہیں دوبار۔ میں زخمی تھا لیکن میں پیش ہوا۔میں نے بیان دیا۔اور جب کمیشن نے اس شخص کوبلایاجو میری نظر میں اس حملےیا میرے خلاف سازش بنُنے کا ذمہ دار تھا، اُس نے پیش ہونے سے انکار کردیا اور کبھی پیش نہیں ہوا اور کوئی رپورٹ نہیں آئی۔ یہی معاملہ اسد طور کے ساتھ تھا۔ انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ پولیس ایف آئی آر کاٹی۔ ایف آئی آر میں ایک انٹیلی جنس ایجنسی کا نام دیا گیااور ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ اسد طور کو انصاف دیا جانا چاہیئے۔

میزبان: کیا آپ کا جھگڑا یہ ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس سروسز اسد طور پر حملے کی ذمہ دار ہیں، جو انہوں نے بیان کیا، یا یہ کہ گزشتہ ایک یا اس سے زیادہ برس کے عرصے میں جو ہم نےصحافیوں حملے بڑھتے ہیں دیکھے ہیں ان کی پشت پر پاکستانی ریاست موجود ہیں؟

حامد میر: یہ چیزیں بارہا بین الاقوامی میڈیا تنظیموں، پاکستانی میڈیا تنظیموں اور حقوقِ انسانی کمیشن پاکستان کی جانب سے چھاپی جاچکی ہیں۔ ہمارے پاس مختلف رپورٹس ہیں۔ یہ دستاویزی حقائق ہیں اور صحافیوں کے اغواء یا ان پر حملوں کا الزام بار بار ریاستی ایجنسیوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر لگایا جاتا ہے۔

میزبان: وزیر اطلاعت فواد چوہدری نے کہا تھا براہ مہربانی کسی نتیجےپر نہ پہنچیں۔ طور صاحب کا معاملہ پیچیدہ ہے اور اس کی باقاعدہ تفتیش کی جائے گی اور انصاف دیا جائے گا۔ ان کے مطابق آپ اُچک کر نتیجوں تک پہنچ رہے ہیں۔

حامد میر: انہوں نے یہ بیان آپ کے شو میں دو مہینے پہلے دیا تھا۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ دو مہینے گزرچکے ہیں تو انصاف کہاں ہے؟ یہی مسئلہ ہے، یہی سوال ہے۔ پھر انہوں نے کہا صحافی پاکستان سے باہر پناہ کےلئے پاکستان میں ڈرامہ رچاتے ہیں۔ اسد طور یا میں نے کبھی پناہ کی کوشش نہیں کی۔ہمیں امیگریشن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تو کہاں ہے انصاف؟ یہ ہے مسئلہ۔ پاکستان کی ریاست ہمیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔

میزبان: اگر ہم انصاف کی بات کریں تو انصاف کے معاملے پر دیکھنے کے مختلف طریقے ہیں۔ آپ نے جو آخرمئی میں اپنی تقریرمیں کہاکی وجہ سے آپ کو اب بغاوت کے الزامات کاسامناہے۔آپ کو کم ازکم چھ الزامات کاسامناہے۔آپ کوعدالت لےجانےکےلئےپٹیشن درج کرائی جاچکی ہیں۔ اپ کو الزامات کا سامنا ہے اگر یہ الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو آپ کو عمر قید ہوسکتی ہے۔

حامد میر: ہاں اور میں عمر قید کےلئے تیار ہوں کیوں کہ اگر یہ مجھے سزا دیں گے تو کم از کم دنیا کو معلوم تو ہوگا کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے۔ پوری دنیا کو علم ہے کہ پاکستان میں کیاہورہا ہے کیوں کہ میں پاکستان میں سینسرشپ کی زندہ مثال ہوں۔ پوری دنیاجانتی ہے حامد میر کے ساتھ کیا ہوا اور اس پر پابندی کیوں ہے اور ہر کسی کو ان لوگوں کےناموں کاعلم ہے جن کا میں نےذکرنہیں کیا، ہر کوئی جانتا ہے کہ مجھ پر پابندی کے عائد کروانے کے ذمہ داران کون ہیں۔ عام پاکستانی بہت باشعور ہیں۔ جو ہورہا ہےوہ اس کےمتعلق سب کچھ جانتےہیں۔ لیکن آپ دیکھیں پاکستان میں کوئی قانونی کی حکمرانی نہیں ہے۔ اورہم صرف انصاف چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم ہونی چاہیئے۔ اور اگر صحافی سوال پوچھ رہا ہے، اس کی آواز دبانے کی کوشش نہ کریں۔

میزبان: کیاآپ جیو ٹی وی مالکان اورجنگ اخبار گروپ کے آپ کے ساتھ نہ کھڑے ہونے پر مایوس ہیں؟ ابھی آپ معطل ہیں۔ آپ اپنی آواز اور بطور صحافی اپنا پلیٹ فارم کھو چکے ہیں۔ آپ کتنے مایوس ہیں؟

حامد میر: میں غلط بات نہیں کروں گا۔ ہاں، یقیناً میں مایوس ہوں لیکن میں حالات کوسمجھ سکتا ہوں کیوں کہ میرے گروپ ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمان کو گزشتہ برس گرفتار کرلیا گیا تھا اور وہ سات ماہ تک تین دہائیوں پرانے کیس میں جو کوئی بہت بڑا کیس نہیں تھا،قومی احتسابی بیورو کی حراست میں رہے تھے۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ گرفتار صرف اس آزادی کےلئےکیے گئے تھے جو وہ ہمیں دینے کی کوشش کررہے تھے۔سپریم کورٹ سے انہیں ضمانت پر رہائی ملی لیکن ان کا نام ای سی ایل پر ہے۔ وہ پاکستان نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ گن پوائنٹ پر ہیں۔ تو جب انہیں حامد میر پر پابندی کا کہا گیا ، انہوں نے مجھ پر پابندی لگادی۔ میں ان کا مسئلہ سمجھ سکتا ہوں۔

میزبان:ایسا لگتا ہے آپ براہ راست سارا الزام عمران خان پر لگارہے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سالوں میں آپ عمران خان کے کافی قریب تھے، وہ آپ کا دفاع کرتے تھے اور انہوں نے ماضی میں آپ کے ساتھ کام کیا۔ آپ گزرے سالوں میں ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ کیا آپ سمجھے ہیں عمران خان ذاتی طور پر آپ کو آف ایئر دیکھنا چاہتے ہیں؟ سزایافتہ اور سلاخوں کے پیچھے؟

حامد میر: یہ میرے لئے ایک بہت مشکل سوال ہے لیکن میں پوری ایمانداری سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ جب 2007 میں جنرل پرویز مشرف نے مجھ پر پابندی لگائی عمران خان میرے ساتھ کھڑے ہوئےاور ہاں اس وقت وہ پاکستان میں آزاد میڈیا کے سب سے بڑے حامی تھے۔ ہاں، میں نے انہیں اپنے ٹی وی شو میں بہت جگہ دی کیوں کہ وہ حزبِ اختلاف میں تھےاورجب وہ حزبِ اختلاف میں تھےان کے ساتھ میرے دوستانہ مراسم تھے۔ لیکن جب وہ وزیر اعظم بنےاور میں نے سوالات اٹھانا شروع کیےاوران سے جب ذاتی حیثیت میں ملا تو میں نے انہیں کہا کہ آزاد میڈیا کا سب سے زیادہ فائدہ آپ کو ہوا ہے۔ تو انہوں نے کہا ہاں۔ لیکن بدقسمتی سے 2019 میں میرے شو میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ میرے ایک انٹرویو پراور مختلف ٹی وی چینلز پر دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے انٹرویو پر پابندی لگادی گئی۔تو ہم عمران خان پر تنقید کرنا شروع ہوگئے اور میں سمجھتا ہوں وہ میری تنقید سے خوش نہیں تھے۔میرا خیال ہے عمران خان براہ راست مجھ پر پابندی کے ذمہ دار نہیںہیں۔ اور میں نہیں سمجھتاوہ یہ چاہتے ہیں کہ میں آف ایئر ہوجاؤں۔ لیکن ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح وہ طاقتور وزیر اعظم نہیں ہیں اور میرا خیال ہے وہ میری مدد نہیں کرسکتے۔

میزبان:کیا آج آپ اپنی زندگی کے حوالے سے خوفزدہ ہیں؟ میرا اشارہ دو قاتلانہ حملوں کی طرف ہے جن سے آپ بچ نکلے۔ میرا اشارہ آج کی زہر آلود فضاء کی طرف ہے۔

حامدمیر: جی ہاں،مجھے کافی عرصے اپنی ذاتی سیکیورٹی کی بہت فکرہے۔میں نے اپنے خاندان کو پاکستان چھوڑنے کا کہا اور میرے خاندان نے چھوڑ دیا، میرے بیٹی اور اہلیہ پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔کچھ لوگ میرے پاس آئے اور پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ لیکن میں نے پاکستان نہ چھوڑنے کافیصلہ کیا۔

میزبان:آپ نے آمریت،ایمرجنسی اور کچھ بہت بہت سخت سیاسی ادوار میں صحافت اور رپورٹنگ کی ہے۔آپ کیا سمجھتےہیں آپ کے ملک میں کیا ہورہا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں جمہوریت بڑے خطرے میں ہے؟

حامد میر:جب میں پیدا ہوا فوجی آمرایوب خان پاکستان پر حکومت کررہا تھا، جب میں اسکول گیا فوجی آمر جنرل یحییٰ خان حکومت کررہا میں تھا۔جب میں کالج گیا جنرل ضیاء الحق پاکستان پرحکومت کررہا تھا۔ جب میں نے صحافت شروع کی، جنرل ضیاء برسرِ اقتدار تھا۔مجھ پر پہلی بار پابندی جنرل پرویز مشرف نے لگائی۔ تو میری زندگی، میری صحافت ملٹری ڈکٹیٹروں کی وجہ سے بہت متاثرہوئی۔آپ دیکھیں اس ہی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل قانون کی حکمرانی میں ہے۔ اس لئےہم پاکستان میں عام جمہوریت چاہتے ہیں کیوں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح ایک جمہوریت پسند تھے اور میں ان کا پیروکار ہوں۔ اور وہ تمام لوگ جو ہم سے میڈیا کی آزادی چھیننا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے دشمن ہیں اور محمد علی جناح کے دشمن ہیں۔

Read Comments