پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں ایک مندر پر حملے اور توڑ پھوڑ کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، جس وزیراعظم ہاؤس نے نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
بدھ کی رات ٹوئٹر پر ایکٹیوسٹ کپل دیو کی جانب سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس لاٹھیوں سے لیس چند افراد کو ایک مندر میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں کے ساتھ مندر کی کھڑکیوں، دروازوں اور وہاں موجود مورتیوں کو توڑ رہے تھے۔
کپل دیو نے ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے قائدِاعظم محمد علی جناح کا ایک قول لکھا، 'تم اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہو؟ دیکھیے دن دیہاڑے ایک مندر پر حملہ کیا گیا ہے۔ ہندوؤں کے لیے ایک اور برا دن جب ضلع رحیم یار خان کے شہر بھونگ میں گنیش کے مندر پر شرپسندوں نے حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے مندر پر حملے کو فیس بک پر لائیو نشر کیا۔'
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کپل دیو کی ویڈیو پر ردعمل میں لکھا، ’یہ نہایت افسوس ناک اور بدقسمت واقعہ ہے۔ وزیراعظم کے دفتر نے اس واقعے کا نوٹس لیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کو معاملے کی تفتیش اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔‘
رحیم یار خان پولیس حکام کے مطابق مندر پر حملے کے بعد بھونگ میں پولیس کی نفری اور رینجرز کے اہلکار پہنچ گئے ہیں اور حالات اس وقت کنٹرول میں ہیں۔
ضلعی پولیس کے مطابق ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین نے مندر پر حملے کے واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
صارفین نے لکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ممبر قومی اسمبلی اور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش وانکوانی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
٭ تنازعے کی وجہ کیا ہے۔۔۔؟
بی بی سی کے مطابق حالیہ واقعہ 23 جولائی کو پیش آنے والے ایک واقعے سے جڑا ہے جس میں ایک آٹھ سالہ بچے پر توہین مذہب کا الزام لگا تھا۔
پولیس حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ 24 تاریخ کو ہم نے ایک آٹھ سال کے بچے کے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی مدرسے کی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ لائبریری میں ایک بچے نے آکر پیشاب کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور بچے کو گرفتار کیا گیا۔
اے ایس آئی کے مطابق چونکہ بچہ نابالغ تھا اس لیے قانون کے مطابق 295 اے کی سخت سزا اسے دی نہیں جا سکتی تھی۔ مجسٹریٹ صاحب نے ضمانت پر 28 تاریخ کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ لڑکے کو چھوڑنے کے بعد علاقے میں دوبارہ سے ایکٹویٹی شروع ہو گئی۔
’شام کو چار بجے سی پیک کا روڈ 25 کے قریب لوگوں نے بلاک کیا۔ میں نے ایڈیشنل آئی جی کو بتایا۔ ساڑھے چھ بجے انہوں کے مندر پر حملہ کیا تھا۔ گھروں میں جانے کی کوشش کی۔ پھررینجرز کو بلایا گیا۔ اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان میں کسی مذہبی اقلیت کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ہندو اور مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر حملے بھی کیے گئے، جن میں کئی افراد ہلاک بھی ہوئے۔
اس سے قبل دسمبر 2020 میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں مشتعل مظاہرین نے ہندوؤں کے مقدس مقام میں ایک سمادھی کی توسیع کے خلاف ہلہ بول کر مندر کی توسیع کو روک دیا تھا۔ اس موقع پر مظاہرین نے مندر کو شدید نقصان بھی پہنچایا۔
تاہم اس حالیہ واقعے نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصب کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔