پانچ ماہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں حدیقہ نامی لڑکی ایک شہریار نامی لڑکے کو لاہور یونیورسٹی میں سب کے سامنے پروپوز کرتی ہے۔
اس ویڈیو کو پاکستانی معاشرتی اصولوں کے باعث سراہنے کے بجائے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں شادی ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے اور روایات کے مطابق یہاں اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل خاندان کے بڑوں کو لازمی شامل کرنا ہوتا ہے۔
تاہم، اب چھ ماہ بعد حدیقہ نے شادی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ دونوں میں رابطہ ختم ہوچکا ہے۔
ایک یوٹیوب چینل کو دیے گئے انٹرویو میں حدیقہ نے کہا کہ وہ نومبر سے ہی شہریار کے ساتھ ریلیشن میں تھیں، وہ اپنے رشتے کو پبلک کرنا چاہتے تھے اسی لیے مارچ میں انہوں نے خود شہریار کو پرپوز کیا۔
حدیقہ کے مطابق شہریار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی ڈگری مکمل ہونے میں دو سال باقی ہیں۔ ڈگری پوری ہونے کے بعد وہ حدیقہ سے شادی کے بارے میں بات کو آگے بڑھائیں گے۔
اس پر رد عمل دیتے ہوئے حدیقہ نے کہا کہ ان دونوں میں لمبے عرصے سے رابطہ ختم ہوچکا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ دو سال بعد شادی کرلی جائے۔ جب رابطہ ہی نہیں ہے تو اچانک شادی کیسے ہوسکتی ہے؟
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد حدیقہ کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں اس واقعے کے بعد خاندان کی طرف سے کافی مسائل اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم، اپنے والد کے تعاون سے چیزیں سنبھالنا بہت آسان رہا ہے ، ورنہ یہ ان کے لیے بہت مشکل تھا۔
حدیقہ نے مشورہ دیا کہ نوجوان اگر ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے خاندانوں کو شامل کرنا چاہیے تاکہ کچھ غلط ہونے کی صورت میں ان کے اہل خانہ ان کی مدد کرسکیں۔
لاہور کی نجی یونیورسٹی میں حدیقہ نے شہریار کو پرپوز کیا تھا جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ وائرل ہوئیں اور دونوں کو یونیورسٹی سے بھی نکال دیا گیا تھا، تاہم بعض وفاقی وزرا کی جانب سے تنقید کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔