لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو جدید آئی ایس پی آر کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی اور کوئٹہ میں طاقتور سدرن کمان کے کمانڈر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے بعد جب عاصم باجوہ پاکستان فوج سے ریٹائر ہوئے تو حکومت نے انہیں نومبر 2019 کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کردیا۔
جس کے بعد اپریل 2020 میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انہیں اپنا معاون خصوصی برائے اطلاعات تعینات کرنے پر سیاسی کیریئر کا آغاز ہوا۔
ان کی تعیناتی کے وقت عوام کی جانب سے خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ فوجی افسر سیاست میں آکر کہیں تنازعے کا شکار نہ ہو جائیں۔
ان کی تعیناتی کے تین ماہ بعد حکومت نے کابینہ میں شامل غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے ملک کے اندر اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات پبلک کیں تو عاصم سلیم باجوہ سوشل میڈیا پر ایک نئے تنازعے کا شکار ہو گئے۔
ان سے منسلک اثاثوں کی فہرست میں ڈی ایچ اے لاہور، کراچی میں رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کے علاوہ گلبرگ گرینز اسلام آباد میں 5 کنال کا گھر تو تھا، مگر تنازعہ ان کی ٹویوٹا زیڈ ایکس 2016 کی ظاہر کردہ قیمت پر ہوا۔
اثاثوں کی تفصیل میں گاڑی کی قیمت 30 لاکھ بتائی گئی تھی مگر مارکیٹ میں ایسی گاڑی کی قیمت تین کروڑ سے زائد تھی۔ابھی یہ تنازعہ ختم نہ ہوا تھا کہ 27 اگست کو صحافی احمد نورانی کی جانب سے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں عاصم سلیم باجوہ کے خاندانی کاروباری معاملات پر بات کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے نام پر امریکا میں متعدد پیزا آؤٹ لیٹس (پاپا جونز) اور جائیدادیں ہیں۔
خبر آنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے اپنے اور اپنے خاندان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جو وزیراعظم نے قبول نہیں کیا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے انہیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
عاصم سلیم باجوہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’الحمد للہ میری ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بے نقاب ہو گئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’جھوٹی خبر میں بطور معاون خصوصی ظاہر اثاثوں کو غلط قرار دیا گیا۔ 22 جون 2020 کو اثاثے ظاہر کیے گئے اس وقت اہلیہ کسی کاروبار میں حصہ دار نہیں تھیں۔ اہلیہ یکم جون 2020 تک انویسٹمنٹ سے دستبردار ہو چکی تھیں۔‘
تاہم ان سے جڑا یہ تنازعہ ختم نہ ہوا اور اپوزیشن رہنماؤں بالخصوص مریم نواز شریف، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے بھی اس خبر کی بنیاد پر ان پر کرپشن کے الزام عائد کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔
اکتوبر 2020 کو لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا تاہم وہ سی پیک کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے رہے۔
سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی معیاد ختم ہونے کے بعد ان کے عہدہ قانونی جواز کھو بیٹھا تو ایک بار پھر اپوزیشن نے تنقید کے تیروں کا رخ ان کی جانب کیا۔ تاہم حکومت نے قانون سازی کے ذریعے دوبارہ انہیں عہدے پر کام جاری رکھنے کا جواز فراہم کر دیا۔
اور اب بلآخر عاصم سلیم باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ اس استعفے کی وجہ کیا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اس حوالے سے مصدقہ اطلاعات موجود نہیں ہیں۔
تاہم عاصم سلیم باجوہ نے اس حوالے سے جاری اپنے پیغام میں کہا،'اللہ کا شکر ہے کہ مجھے سی پیک اتھارٹی کو چلانے کا موقع ملا، سی پیک اتھارٹی نے ون ونڈو سے اس کی سمت کا بھی تعین کردیا، وزیراعظم اور حکومت کی مکمل حمایت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ میری نیک تمنائیں خالد منصور کے ساتھ ہیں جو سی پیک کو آگے لے جائیں گے، انشا اللہ سی پیک سے پاکستان ترقی یافتہ ملک بن جائےگا۔'
واضح رہے کہ عاصم سلیم باجوہ کو نومبر 2019 کو وفاقی حکومت نے پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق عاصم سلیم باجوہ کی تقرری ایم پی ون سکیل کے تحت 4 سال کی مدت کے لیے کی گئی تھی۔