ملکی سیاست میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے اور سیاسی مقاصد کیلئے مخالف سیاستدان کے عقیدے کو نشانہ بنایا گیا ہے اور مخالفین کے مذہب سے متعلق جھوٹے پراپیگنڈے کا طریقہ کار اختیار کرکے ان کی اور اہلخانہ کی زندگی کو خطرے میں ڈالا گیا۔
ترین گروپ کے نذیر چوہان اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کے درمیان حالیہ تنازعہ اس کی ایک مثال ہے۔
دو ماہ قبل ترین گروپ کے رہنما نذیر چوہان نے ایک چینل پر پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر پر احمدی ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ نذیر چوہان نے کہا تھا کہ شہزاد اکبر اس حوالے سے وضاحت کریں اور تردید کریں کہ وہ احمدی یا قادیانیت کی پیروی نہیں کرتے۔
نذیر چوہان کے الزامات، شہزاد اکبر کا ردعمل ۔ ۔ ۔
بعدازاں مشیر احتساب شہزاد اکبر نے اس حوالے سے وضاحت کی تھی اور نذیر چوہان کے الزامات کو بھرپور انداز میں مسترد کردیا تھا۔
انتیس مئی کو اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنیں کہ مشیر احتساب شہزاد اکبر نے ترین گروپ کے رہنما نذیر چوہان کیخلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی ہے جس پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
شہزاد اکبر نے اپنے ٹوئیٹر پر نذیر چوہان کیخلاف ایف آئی اے اور پولیس کو درخواست دینے کی تصدیق کی۔
درخواست میں شہزاد اکبر نے نذیر چوہان پر الزام لگایا تھا کہ عقیدے سے متعلق بے بنیاد الزام لگاکر ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ نذیر چوہان کیخلاف مقدمہ دفعہ 506،258،189،159 کے تحت درج کیا گیا ۔
نذیر چوہان کیخلاف مقدمہ درج کرانے پر فوادی چوہدری نے ان کی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ ذاتی مقاصد کیلئے مذہب کارڈ کا استعمال قابل افسوس ہے۔
ادھرترین گروپ کے ایم پی اے نذیر چوہان کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے انکے خلاف ایک منظم پروگرام چلایا، قانون کی پاسداری کا پابند ہوں، میرے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے تو گرفتاری دوں گا، دوپہر 2 بجے داتا دربار کے باہر گرفتاری دوں گا۔
بعدازاں ترین گروپ نے بھی نذیر چوہان کیخلاف مقدمہ درج کروانے پرسخت ردعمل کا اظہار کیا اور زور دیا کہ اگر کوئی مسئلہ تھا تو اس کو بات چیت یا مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیئے تھا۔ انہوں نے شہزاد اکبر کے قدم کو انتہائی اقدام قرار دیا اور کہا کہ اس سے تنازعے کے حل کیلئے کوششوں کو دھچکا لگا ہے ۔
نذیر چوہان کی گرفتاری
ستائیس جولائی کو پولیس نے نذیر چوہان کو حراست میں لے لیا ، ان کو ایل ڈی اے کے دفتر سے اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ وہاں پر دورے پر گئے تھے ۔ پہلے ان کو تھانہ ریس کورس منتقل کیا گیا جہاں ان کیخلاف مقدمہ درج ہوا تھا ،جس کے بعد ان کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے سیل کے سپرد کردیا گیا۔
اٹھائیس جولائی کو نذیر چوہان کو مجسٹریٹ یوسف عبدالرحمان کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پر ان کو دو روزہ ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔ ایف آئی اے کی طرف سے نذیر چوہان کا چودہ روزہ ریمانڈ عدالت سے مانگا گیا اور بیان کیا گیا کہ نذیر چوہان نے اپنے سوشل اکاونٹس سے شہزاد اکبر کیخلاف مواد اپ لوڈ کیا ہے اور ایف آئی اے ان اکاؤنٹس سے یہ مواد برآمد کرے گا ، اور واٹس ایپ ، ٹوئٹر اور فیس بک اکاونٹ اس تحقیقات کا حصہ ہونگے۔
دو روز بعد نذیر چوہان کو جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد ایف آئی اے نے دوبارہ عدالت میں پیش کیا اور انکے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی ۔ ایف آئی اے کا موقف تھا کہ نذیر چوہان تعاون نہیں کرر ہے، ان کا فیس بک اکاونٹ چیک کرلیا گیا ہے اور ویڈیوز بھی مل گئی ہیں تاہم اسکی وائس سیمپلنگ درکار ہے۔
ایف آئی اے کا مؤقف تھا کہ نذیر چوہان آئی فون کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا واٹس ایپ ڈیٹا اب بھی درکار ہے۔ تاہم نذیر چوہان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے کبھی آئی فون استعمال نہیں کیا اور ایف آئی اے سسٹم کے نقص سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔جس کے بعد ان کا مزید ریمانڈ مسترد کردیا گیا۔
تاہم اب یہ قصہ اختتام پذیر ہوگیا ہے کیونکہ نذیر چوہان نے شہزاد اکبر سے معافی مانگ لی ہے اور مشیر احتساب شہزاد اکبر نے بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو معاف کردیا ہے اور اسٹمپ پیپر پر بھی اس حوالے سے دستخط کرکے اس کو عدالت بھجوادیا ہے کہ انہوں نے نذیر چوہان کو معاف کردیا ہے کیونکہ انہوں نے غلطی تسلیم کرلی ہے۔
اس تنازعے میں مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ترین گروپ نے بھی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نذیر چوہان کی بھرپور حمایت کی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے مذہبی منافرت کو پھیلایا گیا ۔
واضح رہے کہ ترین گروپ اس وقت سرگرم ہوا تھا جب جہانگیر ترین کے خلاف چینی اسکینڈل کی تحقیقات جاری تھیں اور کوشش کی جارہی تھی کہ چینی اسکینڈل کو منطقی انجام تک پہنچنا کر اس کے حقیقی کرداروں کو سامنے لایا جائے۔
حالیہ تنازعے کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب ایسی شکایات بتدریج عام ہورہی ہیں کہ جس میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کو بعض افراد محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کررہے ہیں ،ایسے میں ایک رکن اسمبلی کی جانب سے اس طرز کے رویئے نے معاشرے کے بعض طبقات کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ ارکان اسمبلی سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ایوان کا معزز پلیٹ فارم استعمال کرکے ایسی قانون سازی کرینگے جس سے اس قوانین کے غلط استعمال سے باز رکھا جاسکے۔ لیکن ایک رکن اسمبلی اور سیاست دان کی جانب سے ہی منفی رویئے کے اظہار نے عوام کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔
ماضی میں توہین رسالت یا توہین مذہب کے متنازع مقدمات یا پھر سیاست میں حالیہ تنازعے کے تناظر میں مذہب کارڈ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے ضروری ہے کہ نہ صرف سیاستدان اس طرز کا رویہ اپنانے سے گریز کریں بلکہ عوام میں اس حوالے سے آگاہی مہم بھرپور انداز میں چلائی جائے، تاکہ وہ شواہدکے پیمانے پر صیح اور غلط کوپرکھ سکیں۔