ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمان پر ایک بار پھر قاتلانہ حملے کی کوشش ہوئی ہے، تاہم گارڈز کی بروقت کارروائی کے باعث مفتی تقی عثمانی محفوظ رہے ہیں۔ جبکہ مشتبہ شخص کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
تاہم اس حوالے سے جامعہ کے ایک استاد مولانا مفتی اعجاز صمدانی ایک دوسری کہانی بیان کرتے ہیں۔
مفتی اعجاز کہتے ہیں کہ اس واقعے میں کچھ بات مبالغے والی ہے۔ مفتی صاحب پر حملہ کی بات میں صداقت نہیں۔ میں فجر کی نماز کے بعد حضرت کے دو تین صف پیچھے ہی تھا کہ ایک صاحب آئے، ان کے ہاتھ میں ایک گفٹ پیک جیسا کاغذ کا شاپر تھا، وہ آکر حضرت سے کچھ بات کرتا رہا ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کیا بات ہو رہی ہے۔ گارڈ نے یہ بتایا کہ اس نے حضرت سے کہا کہ مجھے آپ سے علیحدگی میں کچھ بات کرنی ہے آپ ان سب کو الگ کردیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ میں آپ کو جانتا نہیں ہوں لہذا میں آپ سے علیحدگی میں بات کیسے کرسکتا ہوں۔
جس پر وہ شخص پیچھے ہٹا اور ایک کھلا ہوا چاقو جو اس کے بازو کے ساتھ تھا بند کر کے اس بیگ میں رکھنے لگا جسے گارڈ نے دیکھ لیا، جس پر گارڈ اسے ایک طرف لیکر گئے۔ جب یہ بات حضرت کے علم میں آئی تو حضرت وہاں سے اٹھ کر آگئے۔
اس حوالے سے ایس ایس پی کورنگی شاہجہان خان کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص نے بعد نماز فجر مفتی تقی عثمانی سے علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، اور دعویٰ کیا کہ گھریلو مسئلے کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، لیکن جب محافظ نے اس شخص کی تلاش لی تو جیب سے چاقو نکل آیا، جیب سے چاقو برآمد ہونے پر محافظوں نے اسے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کردیا، زیر حراست مشتبہ شخص سے پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ مارچ 2019 میں بھی کراچی کے علاقے نیپا چورنگی کے قریب مفتی تقی عثمانی کے قافلے کو نامعلوم ملزمان کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 2 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے تھے، فائرنگ کے نتیجے میں مفتی تقی عثمانی محفوظ رہے تاہم ان کے گارڈ سمیت ڈرائیور جاں بحق ہوگیا، جب کہ گاڑی میں سوار مولانا شہاب سمیت 2 افراد شدید زخمی ہوگئے تھے اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے تھے۔