74 ہزار قبل ٹوبا سُپر آتش فشاں کے پھٹنے سے دنیا کے موسم پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم، ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ قدیم انسان اس خطرناک ترین آتش فشاں سے بچ نکلے تھے۔
سُپر والکینو کے پھٹنےسے پورے آسمان پر راکھ چھا گئی جس کے سبب تقریباً ایک دہائی تک سرما کا موسم رہا اور درجہ حرارت تیزی سے نیچے آگیا جس کے نتیجے میں زمین کے پھُول پودوں کی اکثریت ختم ہوگئی۔
لیکن نئی تحقیق میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جنوبی ہمیسفیئر(جہاں قدیم انسان رہتے تھے)کا درجہ حرارت 4ڈگری سیلسیس سے نیچے نہیں گرا ، جس نے قدیم انسانوں کو جما دینے والی سردی سے بچنے کا موقع دیا۔
دوسری جانب شمالی ہمیسفیئر(بالخصوص شمالی امریکا، یورپ اور ایشیاء) میں درجہ حرارت 10 ڈگری سیلسیس تک گرا۔
تحقیق میں42عالمی موسمیاتی ماڈل سمیولیشنز کو دیکھا گیاجس میں مختلف عوامل جیسے کہ سلفر کا اخراج، سال کا وہ وقت جب آتش فشاں پھٹا،پسِ منظر میں موسم اور دیگر شامل ہیں۔
رٹگریونیورسٹی کے بنجامن بلیک کاکہناتھا کہ ہم جانتے ہیں کہ آتش فشاں پھٹا اور ماضی کے موسمیاتی ماڈلنگ یہ بتاتی ہے کہ موسم پر اثرات مزید سنگین ہوسکتے تھے لیکن افریقا کے آثارِ قدیمہ اور پالیو کلائمیٹ ریکارڈز سے ایسا کوئی ڈرامائی نتیجہ نہیں معلوم ہوتا۔
بلیک نے مزید کہا کہ شاید سائنس دان غلط جگہ پر Toba super-eruption کے موسم پر اثرات دیکھ رہے ہوں چوں کہ افریقا اور ہندوستان نسبتاً محفوظ تھے۔
انہوں نےمزید کہاکہ آج کے نسان معتدل موسموں کےعلاقوں میں رہتے ہیں،حتیٰ کہ ان علاقوں میں بھی جہاں شدید حد تک درجہ حرارت گِرجاتاہے لیکن جب آتش فشاں پھٹا تھا تب اتنی ٹھنڈ نہیں ہوتی تھی۔
گزشتہ تحقیقوں میں بتایاگیا تھا کہ سُپر والکینو کے پھٹنےسے انسانی ارتقاء پر بڑے اثرات مرتب ہوسکتے تھے، شاید نوع انسانی معدوم بھی ہوسکتی تھی جس کے نتیجے میں آبادی 10 سے 30ہزار تک رہ جاتی۔ لیکن اس نے نسلِ انسانی کو کسی خطرے میں نہیں ڈالا۔
ٹوباسُپر ایرپشن گزشتہ 20 لاکھ برسوں میں سب سے بڑی آتش فشانی ہے۔کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس آتش فشاں نے720 سے1300 مربع میل تک میگماکو ٹھنڈا کردیا تھا کیوں کہ 25 میل کی اونچائی تک راکھ تھی جو سورج کی روشنی کو روکے ہوئے تھی۔
اس خطرناک آتش فشاں کے پھٹنے کے سبب ایک دہائی تک آتش فشانی سرما کا موسم رہا۔