پاکستان نے منگل کے روز ایک بین الاقوامی میڈیا واچ ڈاگ کی اس رپورٹ کو سختی سے مسترد کردیا جس میں وزیراعظم عمران خان کو پریس کی آزادی کیخلاف دنیا کے 37 بدترین حکمرانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے منگل کے روز کہا کہ پاکستان نے بین الاقوامی آزادی صھافت کے گروپ "رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز"سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو 37 عالمی رہنماؤں کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے استعمال کیے گئے معیار کو شیئر کریں جس کے مطابق ان پر آزادی صحافت کیخلاف کریک ڈاؤن کا الزام ہے۔
واضح رہے کہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز، جسے رپورٹرز سینز فرنٹیئرز (آر ایس ایف) بھی کہا جاتا ہے، نے عالمی شخصیات کی ایک پکچر گیلری شائع کی ہے۔ جس میں ان 37 سربراہان مملکت یا حکومتیں شامل ہیں جنہوں نے صحافتی آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ اس رپورٹ میں "RSF’s 2021: Press freedom predators gallery – old tyrants, two women, and a European" کے عنوان سے ایک مضمون بھی شائع کیا گیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جس بالکہل بھی قابلِ فخر نہیں ہے۔
عالمی صحافتی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے نے جمعہ کے روز ایک رپورٹ جاری کی جس میں انہوں نے ان ممالک کو اجاگر کیا جو صحافتی آزادی کو جکڑے ہوئے ہیں۔
آر ایس ایف نے 2 جولائی 2021 کو رپورٹ کیا ہے کہ عمران خان سمیت 17 نئے سربراہان مملکت نے 5 سال بعد جاری ہونے والی اس فہرست میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
'گیلری میں موجود تمام رہنما، ریاست یا حکومت کے سربراہ ہیں جو سنسرشپ کو آلہ کار بنا کر آزادی صحافت کو پامال کرتے ہیں، صحافیوں کو من مانی جیل بھیج دیتے ہیں یا ان کے خلاف تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔'
اس فہرست میں پاکستان بھی ان دیگر 19 ممالک میں شامل ہے جن کو RSF کے آزادی صحافت کے نقشے پر "ریڈ مارک" کیا گیا ہے، اور انہیں صحافت کے لئے "برا" تصور کیا جاتا ہے۔
فی الحال، ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 میں سے 145 نمبر پر ہے ، جبکہ بھارت 142 نمبر پر ہے۔
آر ایس ایف ہر ایک صحافت کے "شکاری" کو اپنے "شکاری طریقہ" کے مطابق تجزیہ کرتا ہے۔
رپورٹ میں 'عمران خان کو پردے کے پیچھے سے کبھی بھی طاقتور فوجی اختیارات پر سوال کیے بغیر عوامی اسٹیج پر اچھے لگنے کے لئے مثالی امیدوار قرار دیا گیا تھا۔'
اس رپورٹ میں ناقدین کو بھی "خیال رکھنے" کے لئے کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان کے پسندیدہ اہداف ہیں۔
آر ایس ایف نے لکھا ہے کہ خان کے صحافتی آزادی کیخلاف شکاری رجحانات "اقتدار سنبھالنے کے بعد" سے ہی سرگرم ہیں، آر ایس ایف کے مطابق، 'پاکستان میں ماضی کے آمرانہ دور کے کچھ بدترین لمحے دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں۔'
آر ایس ایف کے مطابق، پاکستان کی عالمی پریس آزادی رینکنگ 2013 میں 159 سے بڑھ کر 2018 میں 139 ہوئی، صرف 2019 میں 142 اور پھر 2020-21 میں 145 رہ گئی۔
غیر سرکاری ادارے نے نوٹ کیا کہ 'اخباروں کی تقسیم میں خلل پڑا ہے ، میڈیا آؤٹ لیٹس کو اشتہار واپس لینے کی دھمکی دی گئی ہے اور جب سے خان نے حکومت سنبھالی ہے ٹی وی چینل کے سگنلز جام کئے گئے ہیں۔'
25 جنوری کو اپنی رپورٹ میں، آر ایس ایف نے اس وقت مایوسی کا اظہار کیا جب 'بی بی سی کو پاکستان کے آج ٹی وی پر اردو زبان میں روزانہ خبریں شائع کرنے سے روکنا پڑا۔'
پریس فریڈم پرڈیٹرز گیلری نے جولائی 2019 میں واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں خان کے بدنام زمانہ بیان کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے پریس سینسرشپ کے کسی بھی تصور کو مسترد کردیا تھا۔
انہوں نے امریکی دارالحکومت میں کہا ، 'پاکستان صحافت دنیا میں سب سے زیادہ آزاد ہے ۔ یہ کہنا کہ پاکستان پریس پر پابندی ہے یہ ایک مذاق ہے۔'
انہوں نے متعدد مواقع پر پاکستان میں آزادی صحافت پر یہ موقف دہرایا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں، خان نے اعلان کیا کہ پاکستان میں پریس کو برطانیہ کی نسبت زیادہ آزادی حاصل ہے۔
'میں نے برطانوی میڈیا کو دیکھا ہے ، وہ بہت آزاد اور کھل کر بولتا ہیں۔ لیکن میری رائے میں ، پاکستانی میڈیا برطانوی میڈیا سے آزاد ہے۔'
2021 ورلڈ فریڈم پریس رینکنگ پر ، برطانیہ 33 کے نمبر پر ہے ، جبکہ پاکستان کے مقابلے 145 ہیں۔
ستمبر 2020 میں الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت کیخلاف صریح پروپیگنڈا نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔'
آزادی اظہار پر انہوں نے کہا کہ 'میں جانتا ہوں کہ آزادی اظہاِ خیال کیا ہے۔ یہ ہم، حکومت ہیں جو غیر محفوظ محسوس کرتی ہے، میڈیا نہیں۔'
لاپتہ ہونے والوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں خان نے کہا ، 'شاید کچھ صحافیوں کو چند گھنٹوں کے لئے اٹھایا گیا تھا، ان دو برسوں [2018-2020] میں، یہ سنا نہیں گیا ہے۔'