5 جولائی 1977 پاکستان میں جمہوریت کے لئے یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، اس دن جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو یہ کہتے ہوئے تحلیل کیا کہ یہ اقدام ملک کو انتخابات کے بعد ہونے والی بدامنی سے بچانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ 5 جولائی 1977 کو ہونے والی فوج کی اس کارروائی کو "آپریشن فیئر پلے" کا نام دیا گیا تھا۔
اس اعلان کے بعد اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ فوج کی مداخلت کی واحد وجہ جمہوریت کی بقا کو یقینی بنانا ہے اور اس بات کا عزم کیا کہ وہ 90 دن میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس وقت وزیر اعظم تھے اور ان کے بظاہر فوج کے ساتھ تعلقات کچھ اچھے نہیں تھے۔ کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ بھٹو نے 1971 میں اقتدار میں رہنے کے بعد سے دو فوجی بغاوتوں کو ناکام بنایا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ وہ مارچ کے انتخابات کے بعد حزب اختلاف پاکستان نیشنل الائنس (نیپ) کے ساتھ معاہدہ کرنے والے تھے، اور اس پر 5 جولائی کو دستخط کئے جانے تھے، لیکن جنرل ضیاء نے مارشل کا اعلان کردیا۔
5 جولائی اچانک نہیں آگیا تھا۔ یہ انتخابی عمل اور عوامی رائے کی پامالی کا فطری نتیجہ تھا جو بھٹو مرحوم کے دورِ استبداد اور دورِ ستم کے بعد ظہور پذیر ہوا تھا۔ جس کا راستہ بھٹو مرحوم نے خود اپنے ہاتھوں سے ہموار کیا تھا۔
اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل الائنس آف پاکستان دونوں کے رہنماؤں کو ابتدائی طور پر تحویل میں لیا گیا تھا، تاہم مارشال لا کے نفاذ کے بعد انہیں رہا کردیا گیا، بعد ازاں بھٹو کو 'قتل کے الزام میں' گرفتار کیا گیا اور 1979 میں انہیں قصوروار ٹھہرا کر پھانسی دیدی گئی۔
وعدے کے مطابق جنرل ضیا کو 90 دن میں انتخابات کراونے تھے۔ لیکن جب انتخابات ہوئے تو 90 دن کی جگہ تقریباً 90 ماہ گزر چکے تھے۔ اور انہوں نے خود کو ایک ریفرنڈم میں صدر منتخب کرلیا۔ جنرل ضیا نے اپنے 11 سالہ دور حکمرانی میں بیک وقت صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدوں کو اپنے ہاتھ میں رکھا۔
عوام نے پاکستان میں جمہوریت کے لئے کی گئی جدوجہد کو یاد رکھنے کے لئے ٹئوٹر کا سہارا لیا ہے، اور یاد دلا رہے ہیں کہ جمہوریت پر اس دن کس طرح قدغن لگایا گیا۔ جبکہ کچھ آمرانہ طرز حکومت کے حامی اس دن کو " نجات " کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سمیہ گِل نے جنرل ضیا کی ہلاکت اور آموں کی پیٹیوں میں بم کے حوالے سے لکھا، 'پاکستان کے لئے آموں کا دن مبارک ہو۔'
رخسانہ لکھتی ہیں، 'ضیا الحق 90 دن کے بعد انتخابات کا اعلان کر کے 11 سال اقتدار سے لطف اندوز ہوئے۔ ان گیارہ سالوں کے اندر ملک میں مذہبی انتہا پسندی، منشیاتاور کلاشنکوف ثقافت کو فروغ دیا گیا۔ ہم اب بھی ان کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔'
ٹوئٹر صارف ملک انعام نے لکھا، ' شہید ذاوالفقار علی بھٹو کو نوازشریف کی طرح ملک چھوڑنے کی پیش کش کی گئی، شہید بابا نے فوجی آمر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے شہادت کو گلے لگانے کو ترجیح دی۔'
انیشہ لکھتی ہیں، 'لیبیا کے جنرل قذافی نے ذوالفقار علی بھٹو کو لیبیا لانے کے لئے اپنے وزیر اعظم اور جیٹ کو پاکستان بھیجا تھا لیکن بھٹو نے انکار کردیا، انہوں نے کہا کہ میں بھاگنے اور فوجی آمر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے یہاں مرنے کو ترجیح دوں گا۔'
ارباب خان لکھتے ہیں،' ضیاء سے پہلے کا پاکستان، جس نے جمہوری پاکستان اور اس کی خوبصورتی ، باہمی اتحاد، آزادی، رواداری ، وغیرہ کو مار ڈالا۔'
'پاکستان کی تاریخ میں جب ملک کو مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، جب سیاسی کارکنوں کو اسلام کی آڑ میں ننگے پیٹھوں پر کوڑے مارے گئے تھے، جب شاہی قلعے کے دیواریں سیاسی کارکنان کے خون سے رنگی ہوئی تھیں۔'