وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ لاہور میں حالیہ دہشتگرد دھماکے کی ابتدائی تحقیقات میں بھارت کے پاکستان میں دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔
اتوار کو اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ واقعہ میں ملوث دہشتگردوں سے برآمد کئے گئے الیکٹرانک آلات کے فرانزک تجزیے کے ذریعے دھماکے کے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کی شناخت ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دھماکے کا مرکزی ملزم بھارتی ہے جس کاتعلق بھارت کی خفیہ ایجنسی را سے ہے۔
انہوں نے کہا ہم اس سلسلے میں تمام معلومات کا عالمی برادری کے ساتھ تبادلہ کریں گے اور اپنے اس پڑوسی ملک کو بے نقاب کریں گے جو ہمارے بے گناہ شہریوں کے خلاف مسلسل دہشتگردی کو اسپانسر کر رہا ہے۔
معید یوسف نے عالمی برادری پر زور دیا کہ اگر وہ حقیقی طور پر خطے میں امن و استحکام پر یقین رکھتی ہے تو وہ بھارت کے غیر قانونی اقدامات پر آنکھیں بند کرنے کی بجائے بے گناہ پاکستانیوں کے تحفظ کےلئے کردار ادا کرے۔
لاہور دھماکے میں ملوث مجرموں کی گرفتاری پر پاکستانی ایجنسیوں کے کردار کو سراہتے ہوئے ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ واقعے کے فوری بعد پاکستان کے تحقیقاتی ڈھانچے پر ہزاروں سائبر حملے کئے گئے تاکہ ہماری پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
انہوں نے کہا ہماری سائبر سیکیورٹی بہت مضبوط ہے اور ہم نے ان کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا عمران خان نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان سے باہر دہشتگردوں کے عالمی نیٹ ورک تک پہنچنے کےلئے تمام تر قانونی اور سیاسی ذرائع بروئے کار لائیں۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس انعام غنی نے کہا کہ پنجاب پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کامیابی سے کیس کی تحقیقات کیں اور منصوبہ بے نقاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ پیٹر پول ڈیوڈ کا لاہور بم دھماکے میں اہم کردار تھا جو کہ پاکستانی شہری ہے اور کراچی کا رہائشی ہے.
انسپکٹر جنرل نے کہا کہ پیٹر پول ڈیوڈ نے دھماکے میں استعمال کےلئے کار کا بندوبست کیا۔
انعام غنی نے کہا کہ ایک افغان پناہ گزین نے کار میں دھماکا خیز مواد نصب کیا اور اسے اسلام آباد سے لاہور لے کر آیا۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ میں ملوث افراد نے بھاگنے کی کوشش کی تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فوری کارروائی کے باعث انہیں زیادہ وقت نہیں مل سکا۔
نیوز کانفرنس کے دوران دہشت گردوں کی ٹیلی فون پر گفتگو بھی سنائی گئی۔