نو منتخب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتہائی مقرب شمار کئے جاتےہیں۔ خامنہ ای کے اشاروں کے بغیر کسی شخصیت کا کرسی صدارت پر فائز ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہیں ایران کے ولایت فقیہ کے نظام میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے ممکنہ طور ہر ابراہیم رئیسی کو تین اہم ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں۔
٭ پہلی ذمہ داری
سپریم لیڈر کے جانشین کے تقرر کی سب سے بڑی ذمہ داری صدرِ مملکت پر عائد ہوتی ہے۔ اور یہی وہ پہلی ذمہ داری ہے جو نو منتخب صدر کے ذمے ہوگی۔ سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی کی قیادت صدر کو سونپی جاتی ہے۔ صدر، سپریم لیڈر کی وفات یا ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکام رہنے کی صورت میں نئے رہبراعلیٰ کا انتخاب کراتا ہے۔
نئے ایرانی رہبرِ اعلیٰ کے نام کے حوالے سے کئی قیاس آرائیاں پائی جا رہی ہیں۔ مرشد اعلیٰ کے لیے متوقع طورپر موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے صاحب زادے مجتبیٰ خامنہ کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئے صدر ابراہیم رئیسی بھی خامنہ ای کے جانشین ہوسکتےہیں۔
٭ دوسری ذمہ داری
مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم لیڈر کی طرف سے نئے ایرانی صدر کو سونپی جانے والی دوسری ذمہ داری سپاہ پاسداران انقلاب کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، جو ملک کی طاقت بھی ہے۔ ابراہیم رئیسی کو پہلے ہی پاسداران انقلاب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پاسداران انقلاب کے شعبہ اطلاعات ونشریات نے ابراہیم رئیسی کی حمایت میں مہم بھی چلائی تھی۔
سابقہ تین صدور کے ایرانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے، ان کے ادوار میں ایوانِ صدر اور پاسداران انقلاب کے درمیان تناؤ پایا جاتا رہا ہے۔
٭ تیسری ذمہ داری
آنے والے برسوں میں حکومت کے خلاف کسی قسم کے احتجاج کو روکنا وہ تیسری اہم ذمہ داری جو نئے ایرانی صدر کو سونپی جاسکتی ہے۔
یہ بات قابل الذکر ہے کہ ابراہیم رئیسی کا شمار ایرانی رجیم کے مخالفین کو کچلنے والے سرکردہ لیڈروں میں ہوتا ہے۔ وہ اس چار رکنی موت کمیٹی کے رکن رہے ہیں جس پر ہزاروں سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
رئیسی پرالزام ہے کہ انہوں نے سنہ 1988ء کے موسم گرما میں ہزاروں قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ایرانی رجیم کے ریاستی جبر کے باعث سنہ 2018ء اور 2019ء کی طرح اب بھی کسی بھی وقت ملک گیر احتجاج کا خدشہ موجود ہے۔