اسرائیل کی نئی حکومت کے وزیر دفاع بینی گینٹز نے ایک بار پھر باور کرایا ہے کہ تل ابیب تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ کام اور رابطہ کاری جاری رکھے گا۔
پیر کی شام اپنی ایک ٹویٹ میں گینٹز نے بتایا ، 'انہوں نے اسرائیل کے لیے امریکی نمائندے مائیکل ریٹنی کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل اپنے حلیفوں کے ساتھ اس بات کی کوشش جاری رکھے گا کہ تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔ اس حوالے سے بند دروازوں کے پیچھے بات چیت جاری رہے گی'۔
اسرائیل کے نئے وزیر خارجہ یائر لیپڈ نے بھی گذشتہ روز یہ باور کرایا کہ ان کا ملک ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کےلئے وہ سب کچھ کرے گا جو اس کے بس میں ہے۔
اس سے قبل1981 میں اسرائیل ایک مقتدر ریاست میں گھس کر اُس کے جوہری ری ایکٹر پر فضائی حملہ کر کے اُسے مکمل طور پر تباہ کر چکا ہے۔ اسرائیل نے عراق کے ’اوسیراق‘ جوہری ری ایکٹر کو آٹھ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی مدد سے تباہ کیا تھا۔
چاہے وہ کچھ کہے یا نہ کہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک "غیر اعلانیہ" نیوکلیئر ریاست ہے ، اس کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہیں اور وہ ایک نیوکلئیر طاقت ہے۔ لیکن وہ نہیں چاہتا کہ مزید کوئی دوسرا ملک جوہری طاقت حاصل کرسکے۔ حالانکہ خود اسرائیل اپنے نیوکلئیر پروگرام کو اتنا خفیہ رکھتا ہے کہ کوئی اسرائیلی عہدیدار اس پر بات تک نہیں کرنا چاہتا۔ اسرائیل نے نہ تو کبھی اس بات کی تردید کی ہے اور نہ ہی کبھی قبول کیا کہ اس کے پاس نیوکلئیر ہتھیار ہیں اور اگر ہیں بھی تو کتنے ہیں۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے ایٹمی طاقت بنا کیسے اور اس نے اسے کیسے چھپایا؟
اسرائیل کی ایٹمی طاقت بننے کی جدوجہد اس کی پیدائش اور اس کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ جو اسرائیل کی بقا کی ضمانت کے لئے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے حامی تھے۔ لیکن اس نومولود ریاست کے لئے محدود معاشی، تکنیکی اور عسکری وسائل کے ساتھ اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ناممکن تھا۔
لہذا اسرائیل نے ایٹمی ریاست بننے کے لئے امریکا ، فرانس ، جرمنی ، برطانیہ اور یہاں تک کہ ناروے جیسے ممالک کے سازوسامان اور مہارت پر انحصار کیا۔ جو کہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کیونکہ یہ ممالک آج ایٹمی پھیلاؤ کے خلاف مضبوط مہم چلانے والے عناصر ہیں۔
اسرائیل نے صرف مدد حاصل کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ وہ اس حد تک چلا گیا کہ اس نے اپنے اتحادیوں سے جوہری راز چوری کئے، اور جب اس کے اتحادیوں کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے بجائے کوئی اقدام اٹھانے کے اپنی آنکھیں پھیر لیں۔
یعنی بھائی ستم ظریفی دیکھیں کہ ان لوگوں نے نیوکلئیر راز چوری کئے، زمین چوری کی، حقوق چوری کئے ، یہاں تک کہ عربوں کی ڈشیں فلافل اور ہُمُس تک چوری کرنے کی کوشش کی۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔
1956 میں سویز نہر کے بحران پر فرانس اور اسرائیل مصر پر قابو پانے میں ناکام ہوئے تو ، فرانس نے اپنے اس مشترکہ دشمن پر قابو پانے کے لئے اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کیا۔ چنانچہ فرانس نے تل ابیب کو الجیریا کے معاملات پر انٹیلی جنس مہیا کرنے کے بدلے میں کچھ جوہری مہارت بھیجی، جہاں فرانس اینٹی کولونیل بغاوت کا مقابلہ کررہا تھا۔ فرانسیسی پروگرام کو فرانسیسی نژاد یہودی سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کی ہمدردی حاصل تھی۔
1950 کے آخر تک ، فرانس نے 2500 کارکنوں کو دیمونا گاؤں بھیجا، تاکہ وہ اسرائیل کو ایٹمی ری ایکٹر اور ایک خفیہ ری پروسیسنگ پلانٹ بنانے میں مدد دے سکے۔ یہ تعداد اتنی تھی کہ پورا گاؤں رینالٹس اور فرانسیسی ہائی اسکولوں سے بھرے ہوئے ایک فرانسیسی قصبے میں بدل گیا۔ لیکن توقع کے مطابق پورا پروجیکٹ مکمل رازداری کے پردوں میں چھپا دیا گیا۔
امریکی تفتیشی صحافی سیمور ہرش کے مطابق، 'فرانسیسی کارکنوں کو فرانس یا کسی اور جگہ رشتے داروں اور دوستوں کو براہ راست خط لکھنے سے منع کیا گیا تھا، ان کے خطوط لاطینی امریکہ میں ایک جعلی پوسٹ آفس باکس کو بھیجے جاتے تھے۔'
بی بی سی کے مطابق، 1959 میں برطانیہ اور ناروے نے اسرائیل کو 20 ٹن ڈیوٹریئم آکسائڈ بھی فراہم کیا، جسے بھاری پانی بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں حکومتوں کو شبہہ تھا کہ اس سامان کو ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کیا جائے گا، لیکن جان بوجھ کر انہوں نے نظریں پھیر لیں۔
بی بی سی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جب ہیرالڈ ولسن وزیر اعظم تھے، برطانیہ نے اسرائیل کو پلوٹونیم کی بھاری مقدار فراہم کی ۔
ایک رپورٹ کے مطابق ابراہیم فین برگ جیسے یہودی امریکی تاجروں کی کاوشوں کی بدولت اسرائیل کو بیرون ملک سے بھی مالی مدد بھی مل رہی تھی، اسرائیل کے جوہری پروگرام کے لئے دسیوں ملین ڈالرز فنڈز اکٹھا کرنے کا سہرا بھی ابراہم فین برگ کے سر جاتا ہے۔
دیگر ممالک جنہوں نے اسرائیل کے "جوہری بولی" کی حمایت کی ان میں ارجنٹائن اور جنوبی افریقہ کی مقبوضہ حکومتیں شامل ہیں۔ لیکن اسرائیل نہ صرف میٹیریل اور مہارت خریدتا تھا، بلکہ اسے چوری بھی کرلیتا تھا۔
لاکام نام ایک اسرائیلی جاسوس رِنگ کو دیا گیا ہے جس نے یہ خفیہ مشن سرانجام دئے تھے۔ یہ ایک اسرائیلی خفیہ ایجنسی ہے جس نے بیرون ملک سائنسی اور تکنیکی خفیہ معلومات جمع کی تھیں۔
بزنس انسائیڈر کے مطابق، "پریٹی وومن"، ایل اے کانفیڈینشل" اور 12 ائیرز اے سلیو" جیسی ہِٹ فلمیں دینے والے ہالی ووڈ کے ایک ارب پتی پروڈیوسر آرنون ملچن بھی اسرائیلی جاسوس نیٹ ورک کا حصہ تھے۔
دی گارجیئن کے مطابق، ملچن جنہیں 1965 میں شیمون پیریز نے تل ابیب کے نائٹ کلب میں بھرتی کیا تھا، کو یورینیم کی افزودگی کرنے والی اہم ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے، سینٹری فیوجز کے بلیو پرنٹس کی تصاویر کھنیچنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جس کے لئے ایک جرمن عہدیدار کو مبینہ طور پر رشوت دی گئی۔
اب ایک مضحکہ خیز بات آپ کو بتاتے ہیں۔ دراصل اسی طرح کے بلیو پرنٹس کو ایک پاکستانی ملازم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دوسری بار چوری کیا تھا۔ یہ بلیو پرنٹس پاکستان کے نیوکلئیر انرچمنٹ پروگرام کی بنیاد رکھنے کے لئے استعمال کیے گئے تھے اور بعد ازاں مبینہ طور پر لیبیا، شمالی کوریا اور ایران تک بھی پہنچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل 2010 میں ایران کے جوہری مقامات کو ہیک کرنے میں کامیاب رہا تھا۔ کیونکہ یہ تقریباً ایک جیسے سینٹری فیوجز ہی تھے۔
ماضی میں بھی متعدد بار اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کا انکشاف ہوچکا ہے۔ سن 1986 میں ایک اسرائیلی نیوکلیئر ٹیکنیشن موروڈچائی وانو نے برطانوی پریس کو اسرائیل کے نیوکلئیر پروگرام کی خفیہ تصاویر لیک کیں۔ جس کے بعد انہیں موساد نے ہنی-ٹریپ کیا اور انہیں لالچ دیکر اٹلی لایا گیا، وہاں سے انہیں نشہ آور ادویات دی گئیں اور اغوا کر کے اسرائیل واپس لایا گیا۔ انہوں نے 18 سال جیل میں گزارے، جن میں سے 11 قیدِ تنہائی میں گزرے۔
صرف یہی نہیں،1979 میں ایک امریکی جاسوس سیٹلائٹ نے جنوبی اٹلانٹک سمندر میں میں اسرائیلی جوہری تجربے کے فلیشز کو ریکارڈ کیا، لیکن اسے بھی دبا دیا گیا ۔
فارن پالیسی میگزین کے مطابق، اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے انتہائی چالاکی سے اس انٹیلی جنس اطلاع کو دفن کردیا، کیونکہ وہ "مصر اسرائیل امن معاہدے کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔" جبکہ اطلاعات کے مطابق جمی کارٹر کو دوبارہ حکومت کا حصہ بننے کے لئے بھی اسرائیل کی حمایت کی ضرورت تھی۔
سویڈن میں قائم تھنک ٹینک 'سپری' کے مطابق اسرائیل آج 80 سے 400 نیوکلئیر وارہیڈز رکھتا ہے۔ یہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے "این پی ٹی"(Non-Proliferation Treaty) کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو اس کے جوہری مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم اس وقت "ایرانی جوہری بحران" کی دنیا میں رہتے ہیں۔ جس کی یاد اسرائیل اور اس کے اتحادی ہمیں وقتاً فوقتاً دلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہیں بھی نہیں۔
کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شام ، یمن اور عراق میں کئے گئے اس کے مس ایڈونچرز کے باعث اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر ہم کچھ دہائیاں پیچھے جائیں تو اسرائیل نے لبنان، غزہ، مغربی کنارے، مصر، شام اور اردن کے ساتھ کیا کیا ہے؟
تو ، کیوں ہم "اسرائیلی جوہری بحران" یا یہاں تک کہ "امریکی جوہری بحران" کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ صرف وہی ہیں جنہوں واقعتا ً اس طاقت کو استعمال کیاہے؟
دیکھیں، حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی حیثیت ایک تباہی پھیلانے والے سامان سے زیادہ ہے، یہ زبردستی خارجہ پالیسی کے آلہ کار ہیں اور سب سے اہم، بین الاقوامی سیاست میں وقار اور طاقت کی علامت ہیں۔
لیکن چند اقوام کا ایک خصوصی کلب نہیں چاہتا ہے کہ یہ دوسروں کے پاس بھی ہوں۔ جو ازراہِ مزاق دیکھا جائے تو "نیوکلیئر نسل پرستی" کی ایک شکل ہے۔ اس کی مثال آپ کے محلے کے ان بزرگ کی طرح ہے جو آپ کو اور آپ کے دوستوں کو سگریٹ پینے پر ڈانٹنا شروع کردیتے ہیں جبکہ خود ان کے اپنے ہاتھ میں سگریٹ موجود ہوتی ہے۔
تحریر: سفیرالہٰی قریشی