لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت چوبیس زخمی ہو گئے ہیں۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے والے آئی جی پی پنجاب انعام غنی نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکا کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں حافظ سعید کے گھر کی حفاظت پر معمور کچھ اہلکار شدید زخمی ہوگئے تھے۔
ذرائع کے مطابق دھماکے کے اثر سے حافظ سعید کے گھر کی کھڑکیوں اور دیواروں کو نقصان پہنچا ہے۔
کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید احمد مختلف مقدمات کے تحت جیل میں قید ہیں۔ انہیں گذشتہ برس لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں گیارہ برس قید کی سزا سنائی تھی۔
جماعت کے ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ حافظ سعید بدھ کے روز حملے کے وقت اپنے گھر پر نہیں تھے۔
آئی جی پنجاب نے زور دیا کہ وہ "قیاس آرائی" سے گریز کریں، انہوں نے مزید کہا کہ حکام کو ہر سال سیکڑوں "تھریٹ الرٹس" ملتے ہیں۔ ابھی بھی ہمارے پاس خطرے کے 65 الرٹ ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر دہشت گرد حملوں میں "بیرونی عناصر" ملوث ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی حافظ سعید کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ کچھ صارفین نے دعویٰ کیا ہے حافظ سعید نے دھماکے کے بعد ہسپتال کا دورہ بھی کیا۔ تاہم اس کی فی الحال کوئی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔
اسی حوالے سے سینئیر صحافی اعزاز سید نے ایک پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے لکھا، ' حافظ سعید کوٹ لکھپت جیل میں محفوظ ہیں۔'
جوہر ٹاؤن بم دھماکے سے متعلق سوشل میڈیا پر ایک اور نظریہ گردش کررہا ہے جس کے مطابق دشمن عناصر اس واقعے کو ایف اے ٹی ایف مشن کو سبوتاژ کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔
جناح اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر یحییٰ سلطان نے سہ پہر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال میں داخل ہونے والے سات افراد "بال بیئرنگ اور دھماکے سے زخمی ہونے کی وجہ سے" تشویشناک حالت میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زخمیوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک حاملہ تھی اور اسے وینٹیلیٹر لگانا پڑا تھا۔
حافظ سعید کون ہیں؟
لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ اور مرکز دعوۃ والارشاد کے بانی حافظ محمد سعید نے باقاعدہ تنظیم سازی کا آغاز سن 1986 میں ایک ماہانہ میگزین 'الدعوۃ' کی اشاعت سے کیا۔
اسی وقت مرکز دعوۃ والارشاد کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تنظیم کا کام تبلیغ و فلاح کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے مختلف رسائل اور جرائد کے علاوہ مختلف فلاحی کاموں کا بھی سہارا لیا گیا۔
ان میں سرفہرست تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔ مرکز الدعوۃ کے زیراہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کھولے گئے۔ حافظ سعید نے زیادہ توجہ پنجاب کے دیہات اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر پر مرکوز رکھی۔
حافظ سعید نے اپنی سرگرمیوں کا محور لاہور کے نواح میں واقع قصبے مریدکے میں قائم مرکز دعوۃ والارشاد کو بنایا۔
اس دوران مقبوضہ کشمیر میں ایک نئی علیحدگی پسند تحریک نے جنم لیا۔ اسّی کی دہائی کے ختم ہوتے ہوتے، حافظ سعید نے کشمیر میں جاری تحریک میں باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور لشکر طیبہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے حافظ محمد سعید کی تنظیم لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم عمل عسکری تنظیموں میں ایک مؤثر گروپ کے طور پر سامنے آئی۔ تنظیم کی زیادہ تر رکنیت پاکستانیوں کی تھی۔ یہ سلسلہ دس برس چلتا رہا۔ اس دوران لشکر طیبہ کی عسکری کارروائیاں اتنی زیادہ تعداد میں ہونے لگیں کہ خود حافظ سعید اپنی اصل تنظیم مرکز الدعوۃ کے بجائے لشکر طیبہ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔
ان حملوں نے پاکستان اور بھارت میں عسکریت پسندی کی تحریکوں کو جیسے ایک نئے دور میں داخل کر دیا اور کچھ گروہوں کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دیا گیا۔ کشمیر کے بارے میں پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے درمیان خاموش معاہدے ہوئے جن کے نتیجے میں کشمیر میں عسکری کارروائیوں کا سلسلہ سرد پڑتا چلا گیا۔
لشکر طیبہ اس وقت ایک نئی صورتحال سے دو چار ہوئی جب نومبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر ہونے والے خودکش حملوں کے الزام میں اس پر حکومت پاکستان کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن چونکہ پابندی کا دائرہ اثر صرف پاکستان کے اندر تھا تو اس سے نمٹنے کے لیے حافظ سعید نے اپنے دیرینہ ساتھی ذکی الرحمٰن لکھوی کو اس تنظیم کا سربراہ مقرر کر کے اس کے دفاتر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر منتقل کر دیے اور خود ایک بار پھر مرکز الدعوۃ کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ لیکن اس تنظیم کا نام انہوں نے بدل کر جماعت الدعوۃ رکھ دیا۔
چھبیس نومبر 2008 میں ممبئی میں ہوئے دہشت گرد حملوں کا الزام فوری طور پر حافظ سعید اور ان کی تنظیم پر لگا۔ ان کے قریبی ساتھی اور لشکر طیبہ کے سربراہ ذکی الرحمٰن لکھوی اپنے کئی ساتھیوں سمیت اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔
حافظ سعید آج بھی ان حملوں سے اعلان لاتعلقی کرتے ہیں، لیکن انڈیا نے حافظ سعید کو عالمی دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کیا۔ اقوام متحدہ نے ان پر سفری اور مالیاتی پابندیاں بھی عائد کیں۔ انڈیا کے ساتھ ساتھ امریکا ابھی انہیں ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتا ہے۔ اسی بنا پر "کافی شواہد" ملنے کے بعد امریکا نے حافظ سعید کے بارے میں گرفتاری اور سزا میں مدد دینے والے کے لیے ایک کروڑ ڈالر انعام کا بھی اعلان کیا۔
2008 میں جب جماعت الدعوة پر پابندی لگائی گئی تو ’فلاح انسانیت‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور یہ دکھایا گیا کہ یہ ایک فلاحی جماعت ہے اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس تنظیم کے تحت ایمبولینس سروس سمیت پاکستان میں سینکڑوں فلاحی منصوبے چل رہے ہیں۔ ملک میں آنے والی قدرتی آفات و حادثات میں یہ تنظیم کافی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔
ممبئی حملوں کے بعد سے حافظ سعید کئی بار گرفتار ہوئے یا نظر بند کیے گئے لیکن ہر بار "ناکافی" ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیے گئے۔
پہلی بار انہیں ممبئی حملوں کے چند روز بعد نظر بند کیا گیا اور ان کی تنظیم کو دہشت گرد گروہ قرار دے کر اس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
شدید بین الاقوامی دباؤ کے بعد پاکستان نے سنہ 2015 کے بعد ان کی تنظیم جماعت الدعوۃ کو ان شدت پسند تنظیموں کی فہرست میں ڈالا جو سرکار کے زیر نگرانی یا واچ لسٹ میں تھے۔
سنہ 2017 میں 31 جنوری کو انہیں لاہور کے جوہر ٹاؤن میں واقع ان کے گھر میں خدشۂ نقصِ امن کے تحت نظربند کیا گیا تھا۔
انہیں 10 ماہ کے بعد نومبر 2017 میں اس وقت رہا کیا گیا تھا جب لاہور ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی تھی۔